سابقہ جنسی زندگی، ٹرمپ کے لیے نئی پریشانی
14 مئی 2016خود کو ٹرمپ کا ترجمان ظاہر کرنے والے اس شخص نے اپنا نام جان مِلر بتایا تھا اور ٹرمپ کی شادی کی ناکامی اور بیک وقت تین لڑکیوں کے ساتھ ٹرمپ کے میل ملاپ اور جنسی تعلقات سے متعلق باتیں ظاہر کی تھیں، تاہم واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ ٹیلی فون پر کال کر کے یہ معلومات دینے والا ’ترجمان‘ دراصل ڈونلڈ ٹرمپ خود تھے۔ واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹر جن سے اس ’ترجمان‘ نے بات کی تھی، کا کہنا تھا کہ یہ آواز جانی پہچانی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ تب کی بات ہے جب برسوں قبل ٹرمپ کی زندگی اخبارات کی زینت بنی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ نے سن 1991ء میں ہونے والی یہ ٹیلی فونک گفتگو عام کر دی ہے، جس میں رپورٹر کو یہ ’ترجمان‘ کہتا ہے، ’کسی بھی عورت کے لیے ٹرمپ کو روکنا ناممکن ہے۔‘‘
جمعے کے روز ٹرمپ نے امریکی نشریاتی ادارے این بی سی سے بات چیت میں اس حوالے سے واشنگٹن پوسٹ کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ٹرمپ نے اس تمام واقعے سے خود کو علیحدہ رکھتے ہوئے کہا کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
تاہم واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ سن 1990ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک عدالتی سماعت میں خود اعتراف کیا تھا کہ وہ بعض اوقات اپنے ترجمان کے نام لے کر خود کالز کر لیا کرتے تھے۔
People میگزین کی رپورٹر سُو کارس ویل کو فون کر کے اس ’ترجمان‘ نے بتایا تھا کہ مختلف اداکارائیں مسلسل کالز کر رہی ہیں کہ اگر وہ ٹرمپ کے ساتھ کہیں جا سکیں اور کچھ وقت گزار سکیں۔‘‘
اس ترجمان نے مزید کہا تھا، ’’میڈونا ٹرمپ سے ملنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے ایک خوب صورت شام بھی پلازہ ہوٹل میں ساتھ گزاری مگر ٹرمپ نے اس رات میڈونا میں زیادہ دلچسپی ظاہر نہ کی۔
یہاں اس ترجمان کا مقصد تھا کہ ٹرمپ کی ملکیت والے اس ہوٹل میں میڈونا ٹرمپ کے ساتھ رہیں، تاہم ان دونوں کے درمیان جنسی تعلق قائم نہ ہوا۔
یہ بات اہم ہے کہ ٹرمپ کی شادی ایوانا ٹرمپ کے ساتھ اسی برس ٹوٹی تھی اور اس کے بعد وہ مارلا ماپیلز کے ساتھ ملنے لگے، جن کے ساتھ بعد میں انہوں نے شادی کر لی۔ تاہم ترجمان کا کہنا تھا کہ ٹھیک اسی وقت وہ دیگر تین خواتین سے بھی ملاقاتیں کر رہے تھے، جن میں ماڈل کارلا برونی بھی شامل تھیں۔
یہ بات اہم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکن جماعت کی جانب سے ’تقریباﹰ یقینی‘ صدارتی امیدوار ہیں۔ انہوں نے اپنی جماعت کی پرائمریز میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے گھاگ سیاست دانوں کو شکست دی، تاہم متعدد متنازعہ بیانات کی وجہ سے ان پر ریپبلکن پارٹی کے سیاست دان بھی تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔