سال 2008ء میں ہزاروں افراد کو موت کی سزا: ایمنسٹی انٹرنیشنل
24 مارچ 2009بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سال 2008ء کے دوران ہی باون ملکوں میں لگ بھگ نو ہزار افراد کو موت کی سزا سنائی گئی۔ ایمنسٹی کے مطابق سزائے موت کے حوالے سے ایشیاء کی صورتحال گمبھیر ہے اور بالخصوص چین میں یہ صورتحال خطرناک حد تک تشویشناک ہے۔ چین میں گُذشتہ برس تقریباً سترہ سو افراد کو موت کی سزا دی گئی۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اصل اعدادوشمار اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں کیوں کہ چین میں خفیہ طریقوں سے بھی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل آئرین خان کے مطابق بری خبر یہ ہے کہ ابھی بھی ہر سال ہزاروں افراد کو پھانسی یا موت کی سزا دی جاتی ہے تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ مجموعی طور پر دنیا بھر میں سزائے موت کے مکمل خاتمے کا رجحان ہے۔
ڈوئچے ویلے اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں آئرین خان نے کہا کہ انسٹھ ممالک میں موت کی سزا کا قانون موجود ہے تاہم سال دو ہزار آٹھ میں صرف پچیس ملکوں میں سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ رجحان موت کی سزا کے خاتمے کی طرف ہے۔
’’جو کارکن دنیا میں سزائے موت کے خاتمے کے لئے سرگرم ہیں انہیں اس سلسلے میں اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں پر فخر محسوس کرنا چاہیے۔‘‘
آئرین خان نے تاہم کہا کہ چین اور جاپان میں سول سوسائٹی کی تنظیمیوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں کی حکومتوں پر دباٴو بنایا جاسکے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل آئرین خان کے مطابق گُذشتہ برس چین میں تقریباً 1700، ایران میں سنگ باری اور پھانسی کے ذریعے 346، سعودی عرب میں سر قلم کرکے 102، پاکستان میں 36، اور امریکہ میں 38 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
گُذشتہ برسوں کی طرح سال دو ہزار آٹھ میں بھی چین، ایران، سعودی عرب، پاکستان اور امریکہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کو موت کی سزا دی گئی۔ لیکن اگر اعداد و شمار کی بات کی جائے تو امریکہ میں موت کی سزاوٴں میں گُذشتہ برسوں کے مقابلے میں کمی کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔ سن دو ہزار آٹھ میں امریکہ میں 38 افراد کو موت کی سزا دی گئی۔ امریکہ کی کل پچاس ریاستوں میں سے پندرہ میں موت کی سزا ختم کردی گئی ہے۔
جارج ڈبلیو بُش کے بعد امریکہ کے نئے صدر کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالنے والے باراک اوباما نے بعض خطرناک قسم کے جرائم کے خلاف سزائے موت کو درست قرار دیتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سزائے موت کے تعلق سے پاکستان کی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ حقوق انسانی کی اس بین الاقوامی تنظیم کا موقف ہے کہ یہ سزا انسانی حقوق کی بنیادی ترین اور سنگین خلاف ورزی ہے۔
پاکستان کی صورتحال کے بارے میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان HRCP کے شریک چئیرمین اقبال حیدر کہتے ہیں کہ اب آہستہ آہستہ پاکستان میں سزائے موت کے خلاف مزاج بنتا جارہا ہے۔ اقبال حیدر اس بات کو خوش آئیند قرار دیتے ہیں کہ سزائے موت کے خلاف پاکستان کے حکمرانوں کی سوچ اور مزاج میں تبدیلی آرہی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ تنگ نظر اور سخت گیر موقف کے حامل افراد سزائے موت کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
امریکہ، جاپان، چین، تائیوان، سعودی عرب، جنوبی کوریا، ایران، پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیاء اور بھارت سمیت دنیا کے 59 ملکوں میں آج بھی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔
سن انیس سو باسٹھ میں بیلجیم منعقدہ ایک کانفرنس میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفّظ کے لئے باقاعدہ طور پر ایک تنظیم تشکیل دی جانی چاہئیے ۔ اس طرح اسی سال ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نام سے ایک بین الاقوامی تنظیم وجود میں آئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سزائے موت کو ریاستی قتل سے تعبیر کرتی ہے۔
سن دو ہزار تین سے لگاتار ہر سال دس اکتوبر کو سزائے موت کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے۔ گُذشتہ سال اس موقعہ پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل آئرین خان نے ایک مرتبہ پھر موت کی سزا کے خاتمے کا مطالبہ دہرایا تھا اور کہا تھا کہ ’’ورلڈ کولیشن اگینسٹ دی ڈیتھ پینلٹی‘‘ ایشیائی ممالک کو ٹارگیٹ کررہی ہے۔’’ اس سال ورلڈ کولیشن اگینسٹ دی ڈیتھ پینلٹی، ایشیائی ممالک کو ہدف بنارہی ہے کیونکہ ایشیاء دنیا کا ایسا حصّہ ہے جہاں موت کی سزا پر سب سے زیادہ عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایسا خطّہ ہے جہاں صورتحال میں تبدیلی کی امید بھی ہے۔‘‘
لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کی گئی تازہ رپورٹ سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ایشیائی ممالک میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔