سربیا میں پھنسے نوجوان، اسکول لوٹیں تو کیسے
12 ستمبر 2017نوجوان مہاجر شعیب نظری کی مادری زبان دری ہے مگر وہ بلغراد میں اسکول جا رہا اور سربیا کی زبان میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ بارہ سالہ یہ نوجوان ان سات سو تارکین وطن میں سے ایک ہے، جو سربیا میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے مختلف اسکولوں میں داخل کیے گئے ہیں۔
رومانیہ: زبردستی سرحد عبور کرنے والے مہاجرین پر فائرنگ
’ترک معاہدہ ختم ہوا تو بھی مہاجرین یورپ نہیں آ پائیں گے‘
دو برس قبل افغانستان سے ہجرت کرنے والا شعیب نظری اپنے خاندان کے ہم راہ اپنے ملک سے نکلا تھا، تو اس کی نگاہ میں یورپ کسی خواب سے کم نہیں تھا، تاہم یہاں پہنچ کر حقیقت اس خواب سے بالکل مختلف نکلی۔
بلقان روٹ کہلانے والے راستے کی بندش کے بعد قریب چار ہزار تارکین وطن، جن میں اکثریت افغان اور پاکستانی باشندوں کی ہے، سربیا میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ یہ وہ افراد تھے، جو ترکی کے ذریعے بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے تھے اور پھر بلقان خطے کے ذریعے مغربی اور شمالی یورپ جانا چاہتے تھے، تاہم بلقان کی ریاستوں نے اپنی اپنی سرحدیں غیرقانونی تارکین وطن کے لیے بند کر دیں اور وہ بلقان خطے کی مختلف ریاستوں میں پھنس کر رہ گئے۔
سربیا میں موجود ان چار ہزار تارکین وطن میں سے نصف تعداد بچوں کی ہے، جن کی تعلیم کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کو دوبارہ جوڑنے کے لیے عالمی ادارہ برائے اطفال یونیسیف کی مدد سے انہیں اسکول بھیجا جا رہا ہے۔ ان بچوں کو اب مقامی زبان سے ناآشنائی کے باوجود مختلف اسکولوں میں داخل کیا جا رہا ہے۔
شعیب کے مطابق، ’’اسکول اچھا ہے۔ دوسرے لڑکے بہت باتیں کرتے ہیں، شور مچاتے ہیں، مگر میں ان کی جانب توجہ نہیں مبذول نہیں کرتا۔‘‘
شعیب کا مزید کہنا ہے، ’’وہ صرف سربین زبان میں پڑھاتے ہیں اور کچھ چیزیں ہمیں سمجھ نہیں آتیں۔‘‘
مگر شعیب اور اس کے بہن بائیوں کے ساتھ مقامی زبان کے کچھ بنیادی سوالات کے جوابات آسانی سے دے لیتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں زبان کی اضافہ کلاسیں بھی دی جا رہی ہیں۔