سری لنکا، چائے کی صنعت میں اُبلتا طوفان
25 جولائی 2022سری لنکا گزشتہ تین ماہ سے ایندھن، خوراک اور دیگر ضروری اشیاء کی شدید قلت کا شکار ہے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر اس حد تک گر چکے ہیں کہ حکومت کے پاس ضروری اشیاء کی بیرون ملک سے درآمد کے لیے رقم موجود نہیں ہے۔ سری لنکا کو 51 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے ادا کرنے ہیں جبکہ ملک میں افراط زر 50 فیصد سے بھی بڑھ چکا ہے۔
چائے کی صنعت کے اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ ملک کے معاشی بحران سے قبل چائے کی برآمدات سالانہ 1.3 ارب امریکی ڈالر تھیں۔ سری لنکا چائے کی مجموعی عالمی پیداوار کا پانچ فیصد مہیا کر رہا تھا لیکن اب یہ پیداوار گزشتہ دو دہائیوں میں اپنی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ سری لنکا سالانہ تقریبا 300 ملین کلوگرام چائے پیدا کرتا ہے۔ درحقیقت سری لنکا چائے فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جو اپنی پیداوار کا 95 فیصد سے زیادہ برآمد کرتا ہے۔
شراکت داروں کا اصرار ہے کہ ملک میں نافذ ہنگامی صورتحال کا اثر ملازمتوں کے ضیاع تک پہنچ گیا ہے اور چائے کے باغات پہلے ہی بڑھتی ہوئی سماجی کشیدگی کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ دارلحکومت کولمبو میں کام سے محروم افراد واپس اپنے علاقوں کو چلے گئے ہیں۔
بجلی کی طویل بندش کی وجہ سے چائے کی پتیاں مرجھا گئی ہیں اور خراب ہو رہی ہیں کیونکہ یہ معیار کو متاثر کرتی ہے۔ کولمبو ٹی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کی چیئرمین جینتا کرونارتنے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چائے کی پیداوار میں 18 فیصد کمی آئی ہے اور ایسا بڑی حد تک کھادوں اور ایندھن کی قلت کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہمیں جلد ہی اس صورتحال کی اصلاح کی ضرورت ہے اور یہاں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
سری لنکا میں 150 سال سے زیادہ عرصے سے موجود چائے کی صنعت کو ایک بحران کا سامنا ہے، جو بنیادی طور پر اس شعبے کے چھوٹے شراکت داروں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ شراکت دار چائے کی پیداوار کے تقریبا 75 فیصد کے ذمہ دار ہیں۔ کرونارتنے نے نشاندہی کی کہ حکومت کو چائے کی عالمی منڈی میں سری لنکا کا حصہ کھونے کے خطرے کے پیش نظر ایندھن کی بحالی اور کھاد کی فراہمی کو مستحکم کرنے کے لیے مثبت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پلانٹرز ایسوسی ایشن آف سیلون کے رکن روشن راجدورائی نے بھی اس خیال سے اتفاق کیا کہ ایندھن کی قلت نے خام مال کی نقل و حمل میں بہت رکاوٹ ڈالی ہے کیونکہ چائے کے باغات سے فیکٹریوں تک کا کام رک گیا ہے۔
راجدورائی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چائے زرمبادلہ کمانے والی ایک بڑی صنعت ہے۔ تقریبا پانچ لاکھ چائے کے چھوٹے کاشتکاروں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے اور اس سے ڈھائی ملین سے زائد افراد متاثر ہو سکتے ہیں، جو چائے کی صنعت سے متعلق براہ راست اور بالواسطہ ملازمتوں سے وابستہ ہیں۔‘‘
راجدورائی نےکہا کہ صرف چائے کی شجرکاری کا شعبہ کم از کم 10 فیصد آبادی کے روزگار کا ذمہ دار ہے اور اس حوالے سے انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ مزدوروں کی دیکھ بھال کی جائے کیونکہ مزدوروں کا مکمل انحصار انتظامیہ پر ہے۔
مختلف اندازوں کے مطابق چائے اگانے والے سات خوشحال اضلاع، 264 نجی چائے کے کارخانے اور حکومت کے زیر انتظام مزید 258 کارخانے شدید مسائل سے دوچار ہیں۔
ناقص پالیسیاں
بہت سے لوگ چائے کی صنعت کے ماہرین سے مشورہ کیے بغیر غلط پالیسیاں اپنانے کو اس صنعت کے موجودہ بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ سن 2015 میں سابق صدر میتھری پالا سری سینا نے ٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کسی مبینہ مشاورت کے بغیر گلیفوسیٹ اور دیگر کیمیائی کھادوں کی درآمد اور استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ان عناصر کا کوئی متبادل بھی پیش نہیں کیا گیا تھا۔
سری لنکا ٹی بورڈ کے سابق چیئرمین روہن پیتھیاگوڈا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اس کے بعد 2021ء میں صدر (حال ہی میں معزول کیے گئے)گوٹابایا راجہ پاکسے نے دوبارہ صنعت کے ساتھ کوئی مشاورت نہ کرتے ہوئے نہ صرف تمام کیمیائی کھادوں بلکہ تمام کیڑے مار ادویات پر بھی پابندی عائد کر دی۔ اس پالیسی سے اختلاف کرنے والے عہدیداروں کو برطرف کر دیا گیا یا انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔‘‘
چائے اور دیگر برآمدی فصلوں سے ہونے والی آمدنی کے نقصان نے سری لنکا کے معاشی زوال میں تیزی لانے میں کردار ادا کیا۔ اس متنازعہ اقدام کے پیچھے سری لنکا کی کاشت کاری کو 100 فیصد نامیاتی بنانا تھا۔ اگرچہ کھادوں پر عائد پابندی ختم کر دی گئی ہے لیکن اس کے بعد سے ان کھادوں کی خریداری کے لیے ملک میں زرمبادلہ ختم ہو چکا ہے۔
گوڈا کے مطابق، ''چائے کی پیداوار میں ہم جو کمی دیکھتے ہیں، وہ بڑی حد تک اس حماقت کا نتیجہ ہے۔ چاول کو اس سے بھی بدتر دھچکا لگا، اس کی پیداوار میں سال بہ سال 40 فیصد کمی ہوئی۔‘‘
بھارتی چائے کی صنعت کے لیے موقع
چائے کی صنعت کے ماہرین نے محسوس کیا کہ سری لنکا میں بحران سے چائے کی پیداوار متاثر ہونے کے بعد بھارتی چائے کی صنعت کو بین الاقوامی منڈی میں اپنی جگہ بنانے کا موقع ملے گا۔
حال ہی میں انڈین ٹی ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین انشومن کنوریا نے کہا ہے کہ چائے کی صنعت توقع کر رہی ہے کہ اس سال سری لنکا میں اقتصادی بحران کی وجہ سے وہاں چائے کی پیداوار تقریبا 15 فیصد کم رہے گی۔
کنوریا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،''ہم پہلے ہی بین الاقوامی خریداروں کو دیکھ چکے ہیں، جنہیں سری لنکا کی چائے کی ضرورت ہے، انہوں نے زیادہ قیمتیں ادا کرنا شروع کر دی ہیں کیونکہ اس ملک سے چائے تقریبا 10 سے 20 فیصد مہنگی ہو چکی ہے۔‘‘
تاہم سری لنکا کی چائے کی صنعت کا خیال ہے کہ خریداروں کے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ ہو سکتا ہے کیونکہ بین الاقوامی خریدار سری لنکن چائے اور اس کے نشان کے وفادار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ صحیح حوصلہ افزائی اور سیاسی استحکام کی واپسی کی امید کے پیش نظر چائے کی صنعت بہتری کی جانب لوٹ سکتی ہے۔
سری لنکا ٹی بورڈ کے سابق چیئرمین پیتھیاگوڈا نے کہا، ''روشن پہلو یہ ہے کہ چائے اب سری لنکا کی سب سے اہم خالص زرمبادلہ کمانے والی صنعت بننے کی طرف لوٹ گئی ہے اور زرعی کیمیکلز مارکیٹ میں واپس آنے لگے ہیں۔‘‘
لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ سری لنکا کے لیے 300 ملین کلوگرام کا سالانہ پیداواری ہدف حاصل کرنے میں ابھی کافی سال لگیں گے.
مرلی کرشنن