سعودی حکومت کی تنبيہ کے باوجود خواتين ڈرائيور سڑکوں پر
27 اکتوبر 2013سعودی عرب کے دارالحکومت رياض ميں مقيم ایک بتيس سالہ خاتون نے نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کو بتايا کہ انہوں نے ہفتے کے روز اپنے گھر سے ايک دکان تک اور پھر دکان سے واپس اپنے گھر تک گاڑی چلائی۔ ملک ميں خواتين کی ڈرائيونگ کے حق ميں مہم چلانے والے کارکنان نے اس عمل کی چار منٹ طويل ويڈيو بنا کر اسے اپنے يو ٹيوب چينل پر جاری بھی کيا۔ دو بچوں کی والدہ اور معاشيات کی محقق کی حيثيت سے کام کرنے والی ان خاتون کے بقول وہ پکڑے جانے پر جيل جانے کے ليے بھی تيار تھيں۔
ايسوسی ايٹڈ پريس کی رپورٹوں کے مطابق شاہ سعود يونيورسٹی ميں پروفيسر کی حيثيت سے پڑھانے والی عزيزہ يوصف اور ايک اور خاتون کارکن کا کہنا ہے کہ انہيں ملک کے مختلف حصوں سے تيرہ ويڈيوز اور قريب پچاس ٹيلی فون موصول ہوئے، جن ميں خواتين نے ہفتے کے دن ڈرائيونگ کرنے کا دعوی کيا ہے۔ تاہم ان اطلاعات اور دعووں کی تاحال تصديق نہيں ہو پائی ہے۔
واضح رہے کہ اگرچہ سعودی عرب ميں عورتوں کے گاڑی چلانے پر سرکاری طور پر کوئی پابندی عائد نہيں ہے تاہم خواتين کو گاڑی چلانے کا لائسنس ہی فراہم نہيں کيا جاتا۔ اسی صورت حال کو تبديل کرنے اور ملک ميں عورتوں کو يہ حق دلانے کے ليے ان دنوں ايک مہم جاری ہے۔
رواں سال ستمبر کے وسط ميں شروع کی جانے والی ’وومين ٹو ڈرائيو‘ نامی اس مہم کے منتظمين کے مطابق اب تک انہيں قريب بيس ہزار شہريوں کی حمايت حاصل ہو چکی ہے۔ منتظمين نے اپنے ٹوئٹر پر مندرجہ ذيل پيغام جاری کيا ہے، ’’يہ مہم اس وقت تک نہيں رکے گی جب تک پابندی ختم نہ کر دی جائے۔‘‘
اس مہم ميں حصہ ليے والی خواتين کارکنان نے چند روز قبل عورتوں پر زور ديا تھا کہ وہ ہفتے کے روز گاڑياں چلا کر اپنے حق کے ليے آواز بلند کريں۔ مہم ميں ايسا کرنے کے ليے ان خواتين کو کہا گيا تھا، جن کے پاس غير ملکی يا انٹرنيشنل لائسنس ہوں۔
اس کے رد عمل ميں جمعرات کے روز سعودی حکومت نے يہ اعلان کيا تھا کہ ہفتے کے روز سڑک پر گاڑی چلانے والی خواتين کو حراست ميں لے ليا جائے گا۔ منتظمین نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا تھا کہ اس سلسلے میں سرگرم خواتین کو وزارت داخلہ کی جانب سے فرداﹰ فرداﹰ ٹیلی فون کالز موصول ہوئی تھيں، جن میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی مہم سے باز رہیں۔ تاہم ايک سکيورٹی اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتايا کہ ہفتے کے روز کسی بھی خاتون کو گرفتار نہيں کيا گيا۔
واضح رہے کہ سعودی عرب ميں يہ سن 2011 کے بعد اسی طرز کی دوسری مہم ہے۔ قبل ازيں 1990ء ميں سينتاليس عورتوں نے کچھ اسی طرح کا طرز عمل اپنايا تھا ليکن اس وقت ان تمام خواتين کو زير حراست لے ليا گيا تھا اور انہيں سخت سزائيں بھی دی گئی تھيں۔