سعودی خواتین کو بلدیاتی الیکشن میں امیدواری کی اجازت
30 اگست 2015سعودی دارالحکومت ریاض سے ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق بلدیاتی الیکشن میں خواتین کو بطور امیدوار شرکت کا حق دینے کا فیصلہ مرحوم بادشاہ عبداللہ نے 2011ء میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے کیا تھا لیکن اب اگلے انتخابات کے لیے امیدواروں کے اندراج کا عمل شروع ہونے کے ساتھ ہی اس موضوع پر پورے ملک میں ایک متنازعہ بحث کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔
سعودی عرب کی مقامی آبادی کی بہت بڑی اکثریت اسلام کے وہابی مکتبہ فکر پر عمل کرتی ہے اور سخت گیر مذہبی سوچ کے حامی ایک مبلغ عبدالرحمان البراک نے چند روز قبل واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ شہری بلدیاتی اداروں میں خواتین کی شمولیت کا مطلب ہو گا مردوں اور عورتوں کا غیر قانونی طور پر ’ایک دوسرے میں گھل مل جانا‘ اور اس کا نتیجہ سعودی معاشرے کا ’مغربیایا جانا‘ یا ’ویسٹرنائزیشن‘ ہو گا۔
اس سلسلے میں عبدالرحمان البراک نے گزشتہ ہفتے ایک فتویٰ بھی جاری کر دیا تھا، جس کے مطابق سعودی خواتین کو ’ملک میں بدعنوانی کی چابی‘ نہیں بننا چاہیے۔
اسی موضوع پر سعودی عرب میں سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے صارفین ایسے فتوے بھی آن لائن پوسٹ کر رہے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ عورتوں کے ووٹوں کا ممکنہ طور پر ان کے شوہروں، اہل خانہ اور قبائل کی طرف سے استحصالی استعمال بھی دیکھنے میں آ سکتا ہے۔
دوسری طرف خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں اور کارکنوں کا موقف یہ ہے کہ سعودی عورتوں کو صرف بلدیاتی الیکشن میں امیدوار بننے کی اجازت دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ملک کے تمام شہری بلدیاتی اداروں میں خواتین ارکان کے لیے باقاعدہ کوٹے بھی مقرر کیے جانے چاہییں۔
اس سال بارہ دسمبر کو ہونے والے یہ انتخابات 2005ء سے اب تک کا تیسرا موقع ہوں گے کہ سعودی ووٹر شہری کونسلوں کے ارکان کا انتخاب کریں گے۔ ان انتخابات میں ہر بلدیاتی ادارے کے ارکان کی مجموعی تعداد میں سے صرف دو تہائی کو چنا جائے گا کیونکہ باقی ماندہ ایک تہائی ارکان اس نمائندگی کے لیے حکومت کی طرف سے نامزد کیے جائیں گے۔
چند تجزیہ کاروں کے بقول قریب تین ماہ بعد ہونے والے الیکشن میں خواتین امیدواروں کے ناکام رہنے کے بعد حکام ممکنہ طور پر اسی کوٹہ سسٹم کو خواتین کی نمائندگی کی صورت حال میں بہتری کے لیے بھی استعمال میں لا سکیں گے۔
سعودی عرب میں جس قومی ادارے کو کسی بھی دوسرے ملک کی قومی پارلیمان کے نزدیک ترین قرار دیا جا سکتا ہے، اس کا نام ’شوریٰ کونسل‘ ہے، جس کے تمام کے تمام ارکان جمہوری طور پر منتخب نہیں بلکہ بادشاہ کی طرف سے نامزد کیے جاتے ہیں۔
موجودہ سعودی بادشاہ سلمان کے پیش رو شاہ عبداللہ نے، جن کا انتقال اس سال جنوری میں ہوا تھا، اپنے ایک شاہی حکم نامے میں کہا تھا کہ شوریٰ کونسل کے ارکان میں سے بیس فیصد خواتین ہونی چاہییں۔
سعودی عرب میں ماضی کے مقابلے میں گزشتہ برسوں کے دوران خواتین کو سرکاری اداروں اور محکموں میں حاصل نمائندگی مسلسل زیادہ ہوئی ہے تاہم انسانی اور نسوانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کو ابھی بھی یہ شکایت ہے کہ سعودی خواتین کو مختلف نوعیت کی دفتری کارروائیاں مکمل کروانے کے لیے آج بھی کسی مرد سرپرست یا ولی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں خواتین کو ابھی تک ڈرائیونگ کی اجازت نہیں ہے۔