سعودی خواتین کے اسپورٹ عبایا پر تنقید کیوں؟
18 اپریل 2018اس میں ملبوس خاتون کھلاڑیوں کی ایک تصویر گزشتہ ماہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔ اس تصویر نے ایک نئی بحث کا آغاز شروع کر دیا ہے کہ کیا یہاں خواتین کالا عبایا ہی پہنیں گی یا پھر وہ مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کے عبایا پہن سکتی ہیں؟ روایت پسند افراد کی رائے میں سعودی خواتین کو کالا عبایا پہننا چاہیے۔ لیکن دوسری جانب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے ’اعتدال پسند‘ اسلام کے پرچار کے باعث زیادہ تر افراد سعودی عرب میں جدید اور رنگ دار عبایوں کے خلاف بات نہیں کر رہے ہیں۔
ڈیزائنر ایمان جوہارجی مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کے اسپورٹس عبایا فروخت کرتی ہیں۔ انہوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ان عبایوں کی بہت زیادہ مانگ ہے، مختلف رنگ خواتین کو خود مختار محسوس کراتے ہیں۔‘‘ ایک زپ لگے جمپ سوٹ کی مانند نظر آنے والے یہ عبایا خواتین کا جسم بھی ڈھانپ دیتے ہیں اور کھیل اور ورزش میں کافی آرام دہ بھی رہتے ہیں۔
تینتالیس سالہ ایمان جوہارجی کے ڈیزائن کردہ یہ جدید ملبوسات ہلکے سبز ، بھورے اور سفید رنگ میں دستیاب ہیں۔ یہ کپڑوں کی تیاری میں ایسے دھاگوں کا استعمال کرتی ہیں جن کی وجہ سے پسینہ آنے کے باوجودکپڑے جسم سے نہیں چپکتے۔ ایک وقت تھا جب جوہاری کو شدید تنقید کا سامنا تھا اور انہیں ’’ بیٹ مین‘‘ کہا جاتا تھا لیکن اب یہ تاثر تبدیل ہو رہا ہے۔
سعودی عرب کی مذہبی پولیس عوامی مقامات پر ورزش کرنے والی خواتین کو نشانہ بناتی رہی ہے۔ لیکن اب یہ سوچ کہ خواتین کو صرف کالا عبایا ہی پہنانا ہے، تبدیل ہو رہی ہے۔ سعودی ولی عہد نے امریکی ٹی وی کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا،’’ قوانین بہت واضح ہیں، خواتین کو اپنا جسم ڈھانپنا ہے وہ کسی بھی رنگ کے کپڑے پہن سکتی ہیں۔‘‘
مسلم رہنما شیخ احمد بن قاسم ال غامدی نے بھی عبایا کے رنگ پر جاری بحث میں دلچسپی پیدا کر دی، جب انہوں نے کہا کہ عبایا کا مقصد عورت کا جسم ڈھانپنا ہے، اس کا کالا ہونا ضروری نہیں ہے۔ سعودی خواتین بھی اپنے اس نئے حق کا بھر پور دفاع کر رہی ہیں۔ ایک خاتون نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ مجھ سے میرے لباس کے بارے میں سوال پوچھے‘‘۔
ب ج/ اا (اے یف پی)