سعودی عرب احتیاط سے کام لے، امریکی اشارہ
12 نومبر 2017ذرائع کے مطابق چند امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ واشنگٹن حکام کی خواہش ہے کہ ریاض حکومت ایران کے ساتھ خطے میں طاقت کی جدوجہد کی کوششوں میں انتہائی محتاط طریقہ کار اختیار کرے۔
ٹرمپ انتظامیہ اور سعودی حکومت دونوں ہی ایران کو علاقائی سلامتی کے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہے۔ امریکی حکومت نے یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں کی جانب سے ریاض پر میزائل حملے کے بعد سعودی عرب کی بھرپور حمایت کی تھی۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں ان دونوں حلیف ممالک کے تعلقات میں سرد مہری واضح تھی تاہم ٹرمپ نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کی پہلی منزل کے لیے سعودی عرب کو منتخب کیے جانے پر ریاض اور واشنگٹن کے روابط دوبارہ سے خوشگوار ہو چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی سعودی عرب نے یمن کی زمینی، فضائی اور سمندری راستوں کی ناکہ بندی کر دی تھی، جس کے بعد امریکی دفتر خارجہ نے یمن کے لیے جانے والی انسانی امداد کی رسائی کے لیے راستے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ایران کا سعودی عرب اور امریکا پر داعش کی حمایت کا الزام
ٹرمپ کا مخصوص لہجہ، کیا کشیدگی میں اضافہ ہو گا؟
سعودی عرب ایران کی طاقت سے خبردار رہے، صدر روحانی
چار نومبر کو لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے اچانک اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے اس فیصلے کی وجہ یہ بیان کی ان کی جان کو خطرہ ہے۔ حریری کے بقول ایران اور اس کی حمایت یافتہ لبنانی تنظیم حزب اللہ نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
دو امریکی اہلکاروں کے بقول شاہ سلمان کی سربراہی میں سعودی حکام نے وزارت عظمی سے مستعفی ہونے کی خاطر حریری کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ ان اہلکاروں نے یہ بھی کہا کہ سعد الحریری کو ریاض میں زبردستی روکے بھی رکھا۔ تاہم سعودی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
اسی تناظر میں وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں حزب اللہ یا کسی غیر ملکی تنظیم کی جانب سے لبنان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کسی بھی کوشش کی شدید مخالفت کی۔