سعودی عرب میں حقوق نسواں کے لیے سرگرم دو مزید خواتین گرفتار
20 جون 2018انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ قدامت پسند ملک سعودی عرب میں حقوق نسواں کے لیے سرگرم عمل خواتین کارکنان کے خلاف جاری مہم کے سلسلے میں یہ گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔
خواتین پر عشروں سے عائد ڈرائیونگ کی پابندی ختم ہونے سے کچھ ہفتے قبل ہونے والی ان گرفتاریوں سے ایک بار پھر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا وہ نقطہ نظر تنقید کی زد میں آ گیا ہے جس کے مطابق وہ ملک میں اصلاحات لانا چاہتے ہیں۔
ولی عہد محمد بن سلمان نئی اصلاحات کے ذریعے بظاہر ملک میں موجودہ سخت سماجی قوانین میں نرمی لانا چاہتے ہیں لیکن حالیہ کریک ڈاؤن نے سعودی عرب میں ولی عہد کے ترقی پسندانہ رحجانات کے نفاذ کے عمل کو متاثر کیا ہے۔
ایکٹیوسٹ حضرات اور سعودی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں گرفتاریوں کی نیا سلسلہ غالباﹰ ملک میں قدامت پسند عناصر کو خوش کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ شاید یہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنان کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ اپنے مطالبات پیش کرنے میں حکومت کی متعین کردہ حدود سے باہر نہ نکلیں۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت نے مصنفہ اور ایکٹویسٹ خاتون نوف عبدالعزیز کو چھ جون کو گرفتار کیا تھا جب انہوں نے مئی میں گرفتار ہونے والی سات ایکٹیوسٹ خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تھا۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم جن سات سرکردہ خواتین کو گزشتہ ماہ گرفتار کیا گیا تھا، وہ سعودی عرب میں خواتین کے ڈرائیونگ کرنے کے حق میں بھی اپنی آواز بلند کرتی رہی ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں جس دوسری خاتون ایکٹیوسٹ کو گرفتار کیا گیا اُن کا نام مایا الزہرانی ہے۔ الزہرانی کو مبینہ طور پر نوف عبدل العزیز کا ایک خط انٹرنیٹ پر پوسٹ کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ ایسا انہیں نوف عبدالعزیز نے اپنی گرفتاری کی صورت میں کرنے کو کہا تھا۔
مشرق وسطیٰ میں ہیومن رائٹس واچ کی سربراہ سارہ لی وٹسن کا کہنا ہے،’’عبدالعزیز اور الزہرانی کا واحد ’جرم‘ گرفتار ایکٹیوسٹ خواتین سے اظہار یکجہتی نظر آتا ہے۔‘‘
سعودی عرب میں چوبیس جون سے خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ تاہم تجزیہ کاروں اور کارکنوں کے مطابق حکومت اس حوالے سے اجتماعی سرگرمیوں کو روکنا چاہتی ہے کیوں کہ اس ملک میں مذہبی قدامت پسند جدیدیت کی شدید مخالفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ص ح/ ع ت / روئٹرز