سعودی قطر تنازعہ، شامی باغی پریشان
17 جون 2017سن 2011 سے شام میں شروع ہونے مظاہروں اور بعد کی پرتشدد صورتحال میں سعودی عرب کا شاہی خاندان اسد حکومت کے مخالفین کی حمایت میں تھا۔ اس کے علاوہ خلیج فارس کی عرب ریاستیں مسلسل شام کے سنی باغیوں کی ہر سطح پر حمایت کرتے پھرتی تھیں لیکن اب ان عرب ریاستوں کے باہمی خلفشار نے اُنہیں انتہائی مشکل حالات سے دوچار کر دیا ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد علوی شیعہ عقیدے کے ہیں اور شام میں علوی شیعہ اقلیت میں ہیں۔ مبصرین کے مطابق سعودی عرب کی حکومت شام کے سنی باغیوں کی حمایت میں تھی کہ تا کہ وہ کامیاب ہو کر اُن کے کٹر سلفی عقائد کے نفاذ کو شام میں یقینی بنا سکیں گے۔ سعودی عرب اور خاص طور پر قطر پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ خانہ جنگی کے دور میں یہ شام کی اپوزیشن اور باغیوں کی مالی امداد کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔
کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے ریسرچر یزید سیاغ کا کہنا ہے کہ تنازعے سے خلیجی ریاستوں میں جو دراڑ پیدا ہوئی ہے اس نے شامی اپوزیشن کی سیاسی حالت کو کمزور کر دیا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ اب عرب لیڈران کھل کر ان کی حمایت کرنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں کیونکہ اِس سے قطر یا سعودی عرب ناراض ہو سکتے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کو شامی اپوزیشن کے ایک اہم لیڈر نے نام مخفی رکھتے ہوئے موجود خلیجی بحران کو ایک وقتی طوفان کا نام دیا ہے۔ ان کے مطابق جلد ہی یہ تنازعہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا اور تمام ریاستیں ایک مرتبہ پھر اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے شیر و شکر ہو جائیں گی۔ شامی اپوزیشن کے لیڈر نے ان خیالات کا اظہار شامی دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع مشرقی غوطہ سے کیا۔
یہ امر اہم ہے کہ شام کے اندر مسلح سرگرمیوں میں مصروف کئی گروپوں کواب بھی سعودی عرب یا قطر کی حمایت حاصل ہے۔ ان میں احرار الشام اور جیش الاسلام جیسے بڑے اور اہم گروپس بھی شامل ہیں۔