چین کا مسعود اظہر سے متعلق موقف، سبب پاکستان سے محبت؟
14 مارچ 2019اس چینی رویے کے بارے میں پاکستان کے زیادہ تر حلقوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ بیجنگ نے ایسا پاکستان کی دوستی اور بہتری کے لیے کیا ہے لیکن کئی معیشت دان، تجزیہ نگار اور سیاست دان اس کو چینی مفاد قرار دیتے ہیں۔ کچھ ناقدین یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ چین کب تک پاکستان کی حمایت کرتا رہے گا اور یہ کہ اگر مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا تو پھر اس کے کیا نتائج ہوں گے۔
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ بھارت چین اور امریکا کی تجارتی جنگ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور بیجنگ کی جگہ لینا چاہتا ہے۔ نئی دہلی صنعتی ترقی میں بھی اشتراکی ملک کو پیچھے چھوڑنا چاہتا ہے، جس پر چینی حلقوں نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے اور کچھ نے اس کا مذاق بھی اڑایا ہے۔ گزشتہ نومبرمیں چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے بھارتی تجارتی ارادوں پر طنز کرتے ہوئے لکھا تھا کہ بھارت کی صنعتی صلاحتیں چین سے بہت پیچھے ہیں۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کے خیال میں چین کا یہ فیصلہ دراصل بھارت کے ساتھ تجارتی مخاصمت کا ہی نتیجہ ہے: ’’جنوبی ایشائی ممالک جیسا کہ افغانستان، نیپال ، مالدیپ، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بھارت کا بہت اثر و رسوخ ہے۔ نیپال کو تو بھارت ایک کالونی سمجھتا ہے، جس کی وجہ سے وہاں غصہ بھی بہت ہے۔ اب چین بھی ان ممالک میں جانا چاہتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے درمیان ایک مسابقت جاری ہے۔ اگر چین سری لنکا میں آدھا ارب ڈالر لگاتا ہے تو بھارت بھی اس کی برابری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو چین نے اگر مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دلوانے کی قرار داد کی مخالفت کی ہے تو یہ اس کی وجہ بھارت سے مخاصمت ہے۔ اس کا سبب بیجنگ کی اسلام آباد سے محبت نہیں ہے۔ ہم چین پر بہت جان چھڑکتے ہیں لیکن چین ہمیں کوئی زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ چین تو خود بھی دہشت گردی و عسکریت پسندی کی مخالفت کرتا ہے اور اس نے اس مسئلے پر کئی بار پاکستان سے بات چیت بھی کی ہے، تو وہ مسعود اظہر کے مسئلے پر پاکستان کی بلا وجہ مدد کیوں کرے گا۔‘‘
کئی دیگر ناقدین کے خیال میں دونوں ممالک کی صرف تجارتی مسئلے پر ہی مخاصمت نہیں ہے بلکہ کئی اور مسائل بھی ہیں، جو ان دو ابھرتی ہوئی عالمی معیشتوں کے درمیان باعث نزاع ہیں۔ ڈاکٹر عذرا اس بات سے متفق نظر آتی ہیں: ’’بھارت کی امریکا سے بڑھتی ہوئی قربت بھی چین کے لیے خطرہ ہے۔ تبت کے مسئلے پر بھی دونوں ممالک کے درمیان تلخی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی طرف سے دلائی لامہ کی حمایت پر بھی بیجنگ پریشان ہے۔ تو اگر بھارت چین کے لیے مشکلات پیدا کرے گا توچین بھی مسعود اظہر کے مسئلے پر پاکستان کی حمایت کر کے بھارت کے لیے مشکلات پیدا کرے گا۔‘‘
تاہم کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ چین نے اپنے مفادات کو بھی پیشِ نظر رکھا ہوا ہے اور اصولی موقف بھی اپنایا ہے۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ اگر یہ اصولی موقف ہے تو بدلنا نہیں چاہیے: ’’بظاہر تو چین کا موقف اصولی ہے کہ اس مسئلے پر بحث و تمحیص ہونا چاہیے اور ثبوت کے بغیر کسی کو دہشت گرد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بھارت کی طرف سے تو امریکا، برطانیہ اور فرانس بول رہے ہیں لیکن اس مسئلے پر پاکستان کا موقف وہاں نہیں پہنچ رہا تو اس لیے چین کہہ رہا ہے کہ بات چیت ہو تاکہ پاکستان کا موقف بھی سامنے آئے۔ لیکن یہ بھی بات صیح ہے کہ چین نے یہ فیصلہ صرف پاکستان کے لیے نہیں کیا کیونکہ چین کے اپنے بھی بھارت سے مسائل چل رہے ہیں۔ دلائی لامہ کے مسئلے پر چین بھارت سے سخت ناراض ہے۔ تو میرا نہیں خیال کہ یہ پاکستان کی درخواست پر ہوا ہے۔‘‘
چینی ماہرین جنرل امجد کی طرح چینی حکومت کے اس فیصلے کو اصولی موقف قرار دیتے ہیں۔ ایشیاء پیسیفک انسٹیٹوٹ آف چائینز اکیڈمی آف سوشل سائنسز سے وابستہ Dr Liu Xiaoxue نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اگر بھارت جامع ثبوت دے تو چین دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہے۔ یہ بات کئی بار کہی جا چکی ہے لیکن بھارت نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ اس کے علاوہ چین نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس مسئلے کے حوالے سے سلامتی کونسل میں طریقہ کار سے متعلق مسائل بھی ہیں۔‘‘
جہاں کچھ مبصرین چینی رویے کو موضوعِ بحث بنائے ہوئے ہیں وہیں کچھ تجزیہ نگار ممکنہ پابندیوں کے اثرات کو بھی زیرِ بحث لا رہے ہیں۔ جنرل امجد شیعب کا خیال ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ حافظ سعید کو بھی دہشت گرد قرار دیا گیا ہے: ’’پاکستان اپنے طور پر غیر ریاستی عناصر کے خلاف کریک ڈاون کر رہا ہے حالانکہ ابھی تک پاکستان کو ثبوت نہیں دیا گیا۔ چین نے یہی تو کہا ہے کہ اگر کوئی ثبوت ہے تو بات چیت کی جائے اور سنجیدگی سے اس مسئلے پر بحث کی جائے۔ تو میرے خیال میں اگر مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دے بھی دیا جاتا ہے تو پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ پاکستان کسی دہشت گردی میں ملوث نہیں۔‘‘
تاہم ملک کی خستہ معاشی حالت کے پیشِ نظر کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا فیصلہ نہ صرف پاکستان کی بدنامی کا باعث بنے گا بلکہ اس کے سنگین معاشی اور مالیاتی نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ سابق وزیرِ خزانہ سلمان شاہ نے اس حوالے سے اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’تمام مالیاتی اداروں پر امریکا اور مغرب کا اثر ورسوخ ہے۔ اگر امریکا اور بھارت نے فیصلہ کر لیا کہ پاکستان کے خلاف کچھ کرنا ہے تو پھر عالمی مالیاتی ادارے ہمیں قرضہ دینے کے عمل میں مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔‘‘