سمندروں میں تیل کی تلاش، ٹرمپ ضوابط تبدیل کریں گے
31 دسمبر 2017سمندری حیات و نباتات کے تحفظ کی ماحول دوست غیر سرکاری تنظیم سینٹر برائے بائیولوجیکل ڈائیورسٹی کے شعبے اوشن پروگرام کی سربراہ ایوکو ساکاشیتا کا کہنا ہے کہ سمندر کی گہرائی میں تیل کی تلاش کی اجازت دے کر ٹرمپ انتظامیہ آبی حیات کے ساتھ ساتھ زمین کے لیے بھی کوئی بھلائی نہیں کریں گے بلکہ تیل کے بہنے سے خطرات میں اضافہ ہو جائے گا۔
باغات کا شہر: ماحولیاتی آلودگی کی لپیٹ میں
نودریافت شدہ انواع حیات کو لاحق خطرات
عالمی ماحولیاتی کانفرنس اور بون کی طویل رات
صرف پیرس معاہدہ ہی کافی نہیں، میرکل
ساکاشیتا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کو پہلے سے مقرر قواعد و ضوابط کو نرم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کو مزید تراشنا اہم ہے۔ دوسری جانب امریکا کی نیشنل اوشن انڈسٹریز کے سربراہ رینڈل لُوٹی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا فیصلہ اس انڈسٹری کو مناسب خطوط پر استوار کرنے کی جانب ایک قدم ہو گا۔ لُوٹی کے مطابق سمندر میں تیل تلاش کرنے کے ماہرین کو موقع ملا ہے کہ وہ حفاظتی اقدامات کے حوالے سے پہلے سے موجود قواعد وضوابط کو جدید اصولوں پر مضبوط بنائیں۔
امریکی حکام نے سن 2010 میں خلیج میکسیکو میں زیر سمندر تیل کے ایک کنوئیں میں ہونے والے دھماکے کے بعد سخت قوانین کا نفاذ کر رکھا ہے۔ یہ تیل کا کنواں تیل تلاش کرنے والے بین الاقوامی ادارے برٹش پٹرولیم کی ملکیت تھا۔ اس حادثے میں گیارہ ملازمین کی ہلاکت ہوئی تھی۔ ماحول دوست ماہرین کے مطابقبرٹش پٹرولیم کے کنویں سے جو تیل بہاگ تھا، اُس نے زمین کے ایکو سسٹم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
اوباما دور میں نافذ ہونے والے ضوابط میں مجوزہ تبدلیوں کو امریکی وزارت داخلہ نے انتیس دسمبر کو دفتری رجسٹر پر عام لوگوں کے مطالعے کے لیے پیش کر دیا ہے۔
زیر سمندر تیل تلاش کرنے والی امریکی انڈسٹری کا خیال ہے کہ اوباما انتظامیہ نے بعض غیرضروری پابندیاں عائد کر دی تھیں اور ٹرمپ انتظامیہ اگر اُن کو ہٹا دیتی ہے تو یہ تیل و گیس کی تلاش میں شریک انڈسٹری کے لیے استحکام کا باعث ہو گا، جو امریکی معیشت کے لیے بہتر اور روزگار کی منڈی میں ایک بڑی پیش رفت ہو گی۔