سموگ میں خطرناک اضافہ، لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی
15 نومبر 2024ساتھ ہی ان دونوں بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں آؤٹ ڈور مریضوں کے علاج کے اوقات رات آٹھ بجے تک بڑھا دیے گئے ہیں۔ پاکستان میں عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے خبردار کیا ہے کہ پنجاب کے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر کے ایک کروڑ سے زائد بچے سموگ کے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔
پاکستان: شدید اسموگ کے سبب کھلی فضا میں سرگرمیوں پر پابندی
اس سے پہلے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بھی سموگ کو سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی وجہ سے ڈھائی لاکھ تک قبل از وقت انسانی اموات کا خدشہ ہے۔
اس وقت ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب کے مختلف اضلاع شدید سموگ کی لپیٹ میں ہیں۔ ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کے ساتھ ساتھ ملتان سمیت کئی شہروں میں نظام تنفس کی مختلف بیماریوں کے شکار شہریوں کی تعداد لاکھوں میں بتائی جا رہی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب بھر سے ایک ماہ کے دوران ڈیڑھ لاکھ لوگ سموگ کا شکار ہوکر ہسپتالوں میں پہنچے جبکہ صرف لاہور ہی میں سموگ سے ایک ہفتے میں 7165 شہری طبی طور پر شدید متاثر ہوئے ہیں۔
صوبائی حکومت کے اقدامات
صوبائی دارالحکومت لاہور میں جمعہ 15 نومبر کی سہ پہر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پنجاب کے ہسپتالوں میں مزید ہیلتھ ڈیسک قائم کرنے اور ہسپتالوں میں ادویات وافر مقدار میں فراہم کیے جانے کی ہدایت بھی کر دی گئی ہے۔
پنجاب میں سموگ راج جاری، اٹھارہ اضلاع میں پبلک مقامات بند
مریم اورنگزیب نے کہا، ''سموگ کے باعث سکول مزید ایک ہفتے تک بند رہیں گے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی کلاسیں آن لائن ہوں گی۔ ریستورانوں کو شام چار بجے تک کا وقت دیا گیا ہے، تاہم وہاں سے کھانا گھر لے کر جانے کی اجازت رات آٹھ بجے تک دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ لاہور اور ملتان میں اگلی اتوار تک ہر قسم کی تعمیرات پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔‘‘
پنجاب حکومت نے ان دونوں شہروں میں آئندہ جمعے، ہفتے اور اتوار کو مکمل لاک ڈاؤن لگانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ان دونوں شہروں میں دھند اور سموگ کی وجہ سے فضائی آلودگی سے متعلق بین الاقوامی معیار کے تحت اے کیو آئی لیول خطرناک سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ سینیئر صوبائی وزیر کے بقول، ''اس وقت سموگ ایک قومی آفت ہے، جو صحت کے بحران میں تبدیل ہو چکی ہے۔‘‘
سموگ ہر سال کے آخری مہینوں میں معمول کا مسئلہ بنتا ہوا
پنجاب کا دارالحکومت لاہور پچھلے کئی دنوں سے شدید سموگ کی زد میں ہے۔ آج جمعے کے روز بھی یہ 650 سے زائد ایئر کوالٹی انڈکس کے ساتھ دنیا کا آلودہ ترین شہر رہا۔ حالیہ ہفتوں میں اس شہر کا ایئر کوالٹی انڈکس کئی مرتبہ ایک ہزار سے زیادہ رہا ہے۔
لاہور اور گردونواح میں سمارٹ لاک ڈاؤن کے ضوابط میں تبدیلی،حکومت دباؤ میں
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کالج آف ارتھ اینڈ اینوائرمینٹل سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر ساجد رشید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سال کے آخری مہینوں میں پاکستان میں شدید سموگ اب معمول کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اس سال تاہم اس کی شدت میں مزید اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ لاہور اور ملتان میں سموگ اس لیے بھی بہت زیادہ ہے کہ ان شہروں کی آبادی بھی زیادہ ہے اور وہاں آلودگی کی سطح بھی زیادہ ہے۔ یہ دونوں شہر بھارت سے آنے والی ہوا کی راہداری پر واقع ہیں۔
پاکستانی صوبہ پنجاب کے سموگ سے متاثرہ شہروں میں تمام اسکول بند
ڈاکٹر ساجد رشید چوہدری کے مطابق، ''پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ماحولیات کے حوالے سے بہت اچھے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر درست طریقے سے عمل نہیں ہو رہا۔ آج بھی کئی مقامات پر کھیتوں میں فصلوں کی باقیات کو لگائی جانے والی آگ دیکھی جا سکتی ہے۔‘‘
طبی ماہرین کے عام شہریوں کو مشورے
طبی ماہر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس وقت لوگ کھانسی، گلے کی خرابی، سانس لینے میں تکلیف، آنکھوں کی بیماریوں، جلدی امراض اور دمے کی شکایات کے ساتھ بڑی تعداد میں ہسپتالوں میں پہنچ رہے ہیں۔ ان کے بقول چھوٹے بچوں اور حاملہ خواتین کے لیے سموگ خاص طور پر ایک بڑی آزمائش ثابت ہو سکتا ہے۔ ''اس لیے شہریوں کو چاہیے کہ وہ اس موسم میں بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں، ماسک پہنیں اور دن بھر پانی زیادہ پینے کے ساتھ ساتھ صبح اور شام کے وقت قہوے یا جوشاندے کا استعمال بھی کریں۔‘‘
پاکستان اب تک فضائی آلودگی کی لپیٹ میں کیوں؟
سموگ کے مسئلے کے بارے میں اظہار رائے کرتے ہوئے ماہر قانون راؤ مدثر اعظم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس وقت لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی لگانے والے ہی ان شہروں سے حکومتوں میں پہنچے ہوئے ہیں۔ انہی شہروں سے نواز شریف، شہباز شریف اور یوسف رضا گیلانی وزارت عظمیٰ تک پہنچے۔
راؤ مدثر اعظم نے کہا، ''ان سیاست دانوں اور رہنماؤں نے ان شہروں میں تحفظ ماحول کے لیے کیا کیا؟ ان سے اس سوال کا جواب ضرور لیا جانا چاہیے۔ جب تک حکمرانوں کی توجہ کمیشن اور کک بیکس والے ترقیاتی منصوبوں پر رہے گی، یہاں کا ماحول کبھی ٹھیک نہیں ہو سکے گا۔‘‘